021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین میں مستحق نکل آنے کاحکم
81934خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

میں نےاپنا  مدرسہ بنانے کے لیے تین کنال نو مرلے جگہ خریدی ،زمین خریدتے وقت ہمیں مختلف حضرات نے بتایا کہ اس زمین کے قانونی  مسائل ہیں جس کی وجہ سے آپ کو تعمیر کے وقت پریشانی ہو گی لیکن میں نے اس بات پر  اس لیے یقین نہیں کیا کہ یہ زمین میں نے   اپنے حفظ کے استاد سے خریدی تھی،اور ان  کا اپنا مدرسہ بھی تھا اس لیے ان سے متعلق ایسی کسی بھی بات کا یقین کرنا مشکل تھا، مزید یہ کہ قاری صاحب نے مجھے قسمیں کھا کر بتایا کہ میری زمین کسی بھی قانونی پیچیدگی سے محفوظ ہے آپ مدرسہ بنانے کے لیے لے رہی ہیں تو آپ کو ہی دوں گا اور کسی کو نہیں دوں گا،ان کے اس قدر یقین دلانے کے بعد  میں نے زمین خریدنے کا فیصلہ کر لیا،زمین کی قیمت تیس لاکھ طے ہوئی جس میں سے  چار لاکھ روپےبیعانہ کے طور پر ادا بھی کر دئے گئے اور اس معاہدہ کا تحریری اسٹامپ بھی تیار کیا گیا جس میں یہ لکھا گیا کہ کسی بھی قانونی پیچیدگی کی صورت میں قاری صاحب اس زمین کو واپس لے کر ہماری بیعانہ کی رقم واپس کرنے کے پابند ہوں گے۔قاری صاحب نے  ہمیں کہا کہ اس کے بعد آدھی رقم آپ زمین کا  قبضہ لیتے وقت دیں گے اور باقی نصف رقم زمین کے انتقال کے وقت دیں گے۔

اگرچہ ہم قاری صاحب کی یقین دہانی کے بعد مطمئن تھے لیکن دائیں بائیں گردش کرتی افواہوں کی وجہ سے ہم نے انہیں کہا کہ زمین کے گرد چاردیواری لگا دی جائےتا کہ اگر کسی کو مسئلہ ہو تو سامنے آجائے،اس پر  انہوں نے کہا کہ میرے پاس بالکل  پیسے   نہیں ہیں کہ میں چاردیواری لگا سکوں، آپ خود لگالیں آپ ہی کے کام آئے گی اور ساتھ ایک کمرہ بھی بنا لیں تاکہ قبضہہ مزید مضبوط ہو جائے۔چنانچہ ہم  نے چاردیواری کا کام شروع کردیا لیکن کام شروع ہوتے ہی کچھ لوگوں نے اصل مالک ہونے کا وعوی کرتے ہوئے عدالت سے کام موقوف(stay)کروا دیا اور کہا کہ یہ زمین ہماری ہے اس پر ناجائز قبضہ کرکے بیچی گئی ہے،ہم نے یہ ساری صورتحال قاری صاحب کو بتائی اور ان سے stay خارج کروانے کو کہا لیکن انہوں نے اس میں کوئی تعاون نہیں کیا اورکہا آپ میری شاگردہ ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ زمین میری ہی ہے دوسرے لوگ غلط دعوی کر رہے ہیں لہذا آپ خود stay خارج کروائیں، ہم نے ایک وکیل کو تیس ہزار فیس دے کر مسلسل پانچ تاریخوں پر حاضر ہو   کر تعمیرات کی بحالی کا عدالتی حکم نامہ لے لیا،یہ سب میں نے اپنے استاد کی عقیدت اور ان کی بات کو معتمد سمجھتے ہوئے کیا،تعمیرات کی اجازت ملنے کے بعد قاری صاحب نے کہا کہ آپ جلد از جلد چاردیواری کا کام مکمل کروائیں اور مضبوط دیوار لگائیں اور گیٹ بھی نصب کریں تاکہ آپ کا قبضہ مضبوط ہو جائے،چنانچہ میں نے مضبوط پتھروں کی چاردیواری لگوائی اور اس کام پر وکیل کی تیس  ہزار فیس کو ملا کر کل پانچ لاکھ پینتالیس ہزار کےاخراجات ہوئے،ابھی ہم  نے قاری صاحب کو زمین کی باقی رقم نہیں دی تھی کہ گاوں میں بڑا جرگہ ہوا جس  میں معززینِ  علاقہ،قاری صاحب اور زمین کی ملکیت کا دعوی کرنے حضرات بھی موجود تھے،جرگہ سےواپسی پر قاری صاحب نے مجھے فون پر بتایا کہ جرگہ میں  یہ فیصلہ ہواکہ تین کنال زمین میری ہی ہے اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں،البتہ اوپر کی نو مرلے زمین اس خسرہ نمبر میں نہیں ہے جس  میں باقی تین کنال ہے،مزید بتایاکہ تین کنال زمین کا راستہ وہی ہے جو نو مرلےکا راستہ ہے،لیکن ملکیت  کے مدعی حضرات اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ تین کنال زمین بھی ہماری ہے جوکوئی  اس پر تعمیر کرے گا ہم عدالت سے اس کام کو موقوف کروادیں گے۔

ہمیں اندازہ ہو گیا کہ زمین کے مسائل حل ہونے والے نہیں اس لیے ہم نے قاری صاحب سے کہا کہ آپ ہمیں زمین کلئیر کروا کر دیں تاکہ آئندہ کسی قسم کے مسائل نہ ہوں  تو انہوں نے کہا کہ میں شرمندہ ہوں نہیں کرواسکتا،ہم نے کہا اگر آپ کلئیر نہیں کروا سکتے تو ہماری بیعانہ کی رقم مبلغ چارلاکھ روپے اور چاردیواری کا خرچ پانچ لاکھ پینتالیس ہزار جو کل نو لاکھ پینتالیس ہزار بنتےہیں واپس کردیں اور اپنی زمین واپس لےلیں،قاری صاحب نےکہاٹھیک ہےمجھے منظور ہے لیکن بیعانہ کی چارلاکھ رقم بیس دن بعد دوں گا اور چاردیواری کے پانچ لاکھ پینتالیس ہزار ایک سال بعد دوں گا،یہ اقرار زبانی تھا  جسے اعتماد کی بناء پر تحریر نہیں کروایا گیا،لیکن دوسرے دن قاری صاحب کے بیٹے جوکہ مفتی ہیں،نے فون پر رقم دینے سے صاف انکار کردیااور کہا کہ میں صرف بیعانہ کی رقم دوں گا وہ بھی جب میری دینے کی استطاعت ہوگی،آپ لوگ اپنی چاردیواری کا میٹریل توڑ کرلے جائیں ہم اس کا خرچہ بالکل نہیں دیں گے۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ سے درج ذیل امور کا حل مطلوب ہے:

1. قاری صاحب کا متنازعہ زمین کو اپنی ذاتی زمین کہہ کر فروخت کرنا اور اس کے لیے قسم کھا کر یقین دلانے کا عمل شرعا کیسا ہے؟

2. معاہدہ کی رو سے قاری صاحب ہمیں بیعانہ اور چاردیواری کے جملہ  اخراجات دینے کے پابندہیں یا نہیں؟قاری صاحب کے بیٹے کا چاردیواری کی رقم کےمتعلق یہ کہہ کر انکار کرنا کہ آپ نے خود اپنی مرضی سے لگائی ہے،کیساہے؟جب کہ ہم نے تو قاری صاحب کی مکمل یقین دہانی کے بعد اور خود ان کی ترغیب کے بعد چاردیواری لگائی تھی۔

3. کیامقامی جرگہ کو یہ اختیارہے کہ وہ اپنا اثررسوخ استعمال کرتے ہوئے یا قاری صاحب اپنا حق استادی جتلائے ہوئے ہماری ساری رقم یا کچھ حصہ واپس نہ کریں؟

4. قاری صاحب کی طرف  سے ادائیگی کے انکار یا  ادائیگی  میں تاخیر کی صورت میں اگرہم عدالت کا سہارا لیں تو کیا ہمارا یہ اقدام استاد کی نافرمانی اور گستاخی کے زمرہ میں تو نہیں آئے گا؟ آپ کا جواب کی روشنی میں ہم مقامی سطح یا عدالت کے ذریعہ  اس مسئلہ کے حل کی طرف جائیں گے،لہذا براہ کرم جلد ان مسائل کا جواب عنایت فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1. قاری صاحب کو بالفرض اگرپہلے علم نہ بھی تھا اوروہ سچے تھےاوراس بناء پروہ گناہگارنہیں ہوئے مگرجب بعدمیں مستحق سامنے آہی گیا توپھر قاری صاحب کا زمین کلیرکرانے سے انکارکرنااور یقین دہانیاں کراناکہ زمین میری ہےاورپھرخود کے بجائے شاگردسے(Stay) ہٹانے کا مطالبہ کرنااورپھر چاریواری کاکہناجبکہ علم ہوگیاہے کہ زمین متنازع ہوچکی ہےدرست نہیں تھا،ان کےلیےضروری تھاکہ علم ہونے کی صورت میں شروع میں ہی صحیح صورتِ حال مشتری کے سامنے رکھتےپھر چاہے وہ خریدتے یاچھوڑدیتےاوراگرشروع میں علم نہیں تھاتو بعدمیں جب استحقاق ظاہرہونےپرعلم ہواتو زمین کلیرکراکے مشتری کو دیتے یا خرچے کرانے سے پہلے زمین کی واپسی کا مطالبہ کرتے اورمشتری کو نقصان سے بچاتے ،تاہم انہوں جب ایسا نہیں کیا اورمشتری کو اندھیرے میں رکھا ان کا یہ طرزعمل اس سارے معاملے میں بہرحال شرعی اعتبارسے درست نہیں تھا ۔

2. چونکہ یہ رقم (وکیل کی فیس،چاردیواری کا خرچہ) قاری صاحب کے امرسے ہوا ہے بلکہ زمین کے متنازع بن جانے کےبعدقاری صاحب کی یقین دہانی کی وجہ سے کیاگیاہے،لہذا قاری صاحب پر اس ضمان آئے گا لہذا بیعانہ کی رقم کے ساتھ مشتری بائع سے وکیل کی فیس اورچادیواری  کی رقم بھی لے سکتاہے اورقاری صاحب کے بیٹے کا انکاراب مفیدنہیں ہوگا،البتہ اس کےلیے یہ ضروری ہے کہ مستحق کے پاس اپنے حق ہونے پرگواہ ہوں اوروہ اپنی ملکیت عدالت میں ثابت کردے۔

3. نہیں ،ان میں سے کسی کو بھی یہ اختیارحاصل نہیں کہ آپ کی ساری یا کچھ رقم واپس نہ کرے ،بشرطیکہ آپ نےپہلے سے  جرگہ کوعمومی  اختیارنہ دیاہو۔

4. نہیں،یہ گستاخی  کے زمرے میں نہیں آئے گا ،یہ آپ کا شرعی حق ہے، لیکن اگرباہمی مصالحت  سےیہ مسئلہ فریقین حل کرسکتے ہوں تو یہ استاذ کے اکرام کے زیادہ قریب ہوگا۔

حوالہ جات
مسند ابن أبي شيبة (2/ 233)
عن أبي الحمراء، قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم برجل عنده طعام في وعاء فأدخل يده فيه فقال: «غششته، من غشنا فليس منا»
في حديث ابن مسعود، عن النبي - صلى الله عليه وسلم -، قال: ((من غشنا، فليس منا، والمكر والخديعة في النار) أخرجه: ابن حبان (5559) ، والطبراني في " الكبير " (10234) وفي " الصغير "
البناية شرح الهداية (11/ 340)
المشتري في صورة الاستحقاق يرجع على البائع بالثمن وقيمة البناء، فكذلك الشفيع م: (والفرق على ما هو المشهور) ش: من الرواية م: (أن المشتري مغرور من جهة البائع وسلط عليه) ش: أي سلط البائع على المشتري على البناء أو الغرس.م: (ولا غرور ولا تسليط في حق الشفيع من المشتري لأنه مجبور عليه) ش: يعني التزم البائع سلامة المبيع عن الاستحقاق، فصار المشتري مغرورا من جهة ولا غرور في حق الشفيع لأنه تملك على صاحب اليد جبرا بغير اختيار منه فلا يرجع.
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 159)
ولو شرى أرضا فبنى أو زرع أو غرس فاستحق يرجع المشتري بثمنه على بائعه، ويسلم بناءه، وزرعه، وشجره إليه فيرجع بقيمتها مبنيا قائما يوم سلمها إليه.
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (4/ 164)
 يرجع المشتري على البائع بالثمن إذا استحق المبيع، وإن كان في زعمه أن البيع صحيح.
قال النبي صلى الله عليه وسلم : ( لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه ) . رواه أبو يعلى وغيره، وصححه الألباني في صحيح الجامع (7662)
 الدر المختار (5/ 195):
( ويثبت رجوع المشتري على بائعه بالثمن إذا كان الاستحقاق بالبينة ) لما سيجيء أنها حجة متعدية   (أما إذا كان ) الاستحقاق( بإقرار المشتري أو بنكوله فلا ) رجوع؛ لأنه حجة قاصرة ( و ) الأصل أن  (البينة حجة متعدية ) تظهر في حق كافة الناس…..( لا الإقرار ) بل هو حجة قاصرة على المقر لعدم ولايته على غيره.
وفی الھدیة فی باب التحکیم :
لانہ مقلد من جھتھمافلایحکم الابرضاھماجمیعا (الھدیة 3/151ط مکتبہ رحمانیة)
{فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا  [النساء: 59]
تفسير ابن كثير ت سلامة (2/ 342)
عن علي قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية، واستعمل عليهم رجلا من الأنصار، فلما خرجوا وجد عليهم في شيء. قال: فقال لهم: أليس قد أمركم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني؟ قالوا: بلى، قال: اجمعوا (6) لي حطبا. ثم دعا بنار فأضرمها فيه، ثم قال: عزمت عليكم لتدخلنها. [قال: فهم القوم أن يدخلوها] (7) قال: فقال لهم شاب منهم: إنما فررتم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من النار، فلا تعجلوا حتى تلقوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن أمركم أن تدخلوها فادخلوها. قال: فرجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبروه، فقال لهم: "لو دخلتموها ما خرجتم منها أبدا؛ إنما الطاعة في المعروف". أخرجاه في الصحيحين من حديث الأعمش، به
قال اللہ سبحانہ وتعالی فی القرآن الکریم  "وَالصُّلْحُ خَيْرٌ"  [النساء: 128]

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

11/5/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے