03182754103,03182754104

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
ٹھیکیدار کا دوسرے لوگوں کی گاڑیاں چلانا، انویسٹرز سے رقم لینا اور کرایہ تقسیم کرنا
81954اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے جدید مسائل

سوال

(1)۔۔۔ میں پی ایس او کمپنی میں ٹھیکیدار کی حیثیت سے کام کرتا ہوں، اس کام میں ہماری ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ ہم مختلف گاڑیوں کے ذریعے پی ایس او کا مال پاکستان کے مختلف شہروں میں منتقل کرتے ہیں۔ پھر جو گاڑیاں میرے ٹھیکے میں چلتی ہیں، ان میں کچھ میری ذاتی گاڑیاں ہیں اور کچھ دوسرے لوگوں کی ملکیت ہے۔ دوسرے لوگوں کی گاڑیاں اپنے ٹھیکے میں چلانے کے لیے ہماری مارکیٹ میں یہ طریقۂ کار اپنایا جاتا ہے کہ پی ایس او کا ٹھیکیدار گاڑی کے مالک کو پیشگی اجرت مثلا 20 لاکھ روپے دے کر اس کی گاڑی کو اپنے ٹھیکے میں چلانے کے لیے شامل کرلیتا ہے اور گاڑی کے مالک کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ گاڑی ہر ٹرپ پر جو مکمل مزدوری کرے گی (مثلا 5 لاکھ) اس کا 12 فیصد (60 ہزار) میرا ہوگا، اس کے علاوہ آپ کو پیشگی جو اجرت ادا کی گئی ہے اس کی بھی مناسب کٹوتی ہوگی۔

سوال یہ ہے کہ اس طریقے سے ٹھیکیدار کا پیشگی اجرت دے کر گاڑی کے مالک کو اپنے ٹھیکے میں شامل کرنا درست ہے یا نہیں؟ اگر یہ طریقہ ٹھیک نہیں تو اب تک جو لوگ اس طرح کام کر چکے ہیں اور پیسے کما چکے ہیں، ان کے لیے کیا حکم ہوگا؟

تنقیح: سائل نے فون پر بتایا کہ: (1) ٹھیکیدار جب کسی سے گاڑی لیتا ہے تو کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا، گاڑی چلتی رہتی ہے، جب گاڑی کا مالک گاڑی واپس لینا چاہتا ہے تو بتادیتا ہے اور حساب کتاب کلئیر کر کے اس کو گاڑی واپس کردی جاتی ہے۔ (2) گاڑی کی مکمل مزدوری (جس کا کچھ فیصدی حصہ ٹھیکیدار لیتا ہے) سے مراد پی ایس او سے ملنے والی رقم ہے۔ (3) ٹھیکیدار گاڑی کے مالک کو پیشگی رقم اس لیے دیتا ہے کہ ہر ٹھیکیدار چاہتا ہے کہ میرے پاس زیادہ سے زیادہ گاڑیاں ہوں، اس لیے گاڑیوں کے مالکان کو راغب کرنے کے لیے ان کو پیشگی رقم دی جاتی ہے جو بعد میں گاڑی کی مزدوری سے آہستہ آہستہ مکمل وصول کرلی جاتی ہے۔ (4) جب ٹھیکیدار گاڑی کے مالک سے گاڑی لیتا ہے تو اس وقت اس کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ پی ایس او سے فی ٹرپ کتنا کرایہ طے ہوگا، وہ مسافت اور پٹرول کی قیمت کے اعتبار سے طے ہوتا ہے۔ (5) تیل اور پٹرول سمیت گاڑی اور ڈرائیور کے تمام خرچے گاڑی کے مالک کے ہوتے ہیں، ٹھیکدار کرایہ میں حصہ اس بنیاد پر لیتا ہے کہ وہ اس کی گاڑی کو اپنے ٹھیکے میں شامل کر کے چلاتا ہے، گاڑی کا مالک خود پی ایس او سے معاملہ نہیں کر سکتا۔ 

(2)۔۔۔ اگر کوئی انویسٹر مذکورہ کاروبار میں مجھے یہ آفر کرے کہ آپ مجھ سے 2 کروڑ لے کر  گاڑیوں کے مالکان کو 25 لاکھ، 25 لاکھ پیشگی اجرت دیں اور ان کی گاڑیاں اپنے ٹھیکے میں شامل کرلیں، گاڑی کے ہر ٹرپ پر جو 12 فیصد نفع آئے گا وہ ہم آپس میں آدھا آدھا کرلیں گے اور ہر قسم کے نفع و نقصان میں بھی برابر کے شریک ہوں گے۔ کیا یہ طریقہ شرعی نقطۂ نظر سے درست ہے؟ اگر درست نہیں تو اب تک جو لوگ اس طرح کام کر چکے ہیں اور پیسے کما چکے ہیں، ان کے لیے کیا حکم ہوگا؟

تنقیح: نقصان میں شرکت کا مطلب یہ ہے کہ اگر گاڑی کا مالک بھاگ گیا یا اور کوئی ایسی بات ہوئی کہ پیسے ڈوب گئے تو میں انویسٹر کو اس کی آدھی رقم واپس کرنے کا پابند ہوں گا۔  

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ صورتِ مسئولہ کی اقرب الی الصحۃ تکییف یہ معلوم ہوتی ہے کہ ٹھیکیدار پی ایس او کا اجیرِ مشترک ہوتا ہے، پی ایس او اس کو اپنا مال مختلف علاقوں میں لے جانے کے عمل پر اجرت دیتی ہے۔ ٹھیکیدار جب کسی دوسرے شخص کی گاڑی اپنے ٹھیکے میں شامل کرتا ہے تو یہ در حقیقت گاڑی کرایہ پر لینے کا معاملہ ہوتا ہے جس میں ٹھیکیدار مستأجر اور گاڑی کا مالک مؤجر ہوتا ہے، شروع میں ان کے درمیان اجارہ نہیں ہوتا، لہٰذا اجرت اور مدت کی جہالت کی خرابی لازم نہیں آئے گی، بلکہ شروع میں ان کے درمیان یہ مفاہمت (ماسٹر ایگریمنٹ) ہوتی ہے کہ ٹھیکیدار اس گاڑی کے ذریعے اپنا کام کرائے گا اور مالک کو مسافت کے لحاظ سے اجرت دے گا، جس کے لیے ابتدائی معیار ٹھیکیدار کو پی ایس او کی طرف سے ملنے والی اجرت کا فیصدی حصہ مقرر کیا جاتا ہے۔ پھر عملاً اجارے کا عقد اس وقت ہوتا ہے جب ٹھیکیدار کسی جگہ کمپنی کا مال لے کر جاتا ہے، ہر ہر مرتبہ کمپنی کا مال لے جاتے وقت نئے عقدِ اجارہ کا یہ انعقاد تعاطی کے ذریعے ہوتا ہے، اور اس وقت اجرت معلوم ہوتی ہے کہ کمپنی ٹھیکیدار کو کتنی اجرت دے گی اور ٹھیکیدار گاڑی کے مالک کو کتنی اجرت دے گا۔

یہ تو اصل معاملہ کا حکم ہے۔ جہاں تک اس رقم کا تعلق ہے جو ٹھیکیدار گاڑی کے مالک کو ابتداء میں دیتا ہے تو اسے اجرت کہنا درست نہیں، وہ شرعا قرض ہے، چنانچہ ٹھیکیدار بعد میں آہستہ آہستہ یہ رقم گاڑی کے کرایہ (جو اس نے گاڑی کے مالک کو دینا ہوتا ہے) سے وصول کرتا ہے۔ اور اجارہ میں قرض کی شرط لگانا اصولی طور پر جائز نہیں، لیکن اگر واقعۃً مارکیٹ میں اس کا عام عرف ہو تو عرف کی وجہ سے اس کی گنجائش ہوگی، بشرطیکہ گاڑی کے مالک کی اجرت کو اس رقم کے ساتھ مربوط نہ کیا جائے کہ زیادہ رقم دینے کی صورت میں اس کی اجرت کم رکھی جائے اور کم رقم دینے کی صورت میں اجرت زیادہ رکھی جائے۔ اگر اس قرض کی وجہ سے اس کی اجرت مارکیٹ اور عرف میں رائج اجرت سے زیادہ رکھی جائے گی تو وہ سود ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہوگی۔  

(2)۔۔۔ یہ معاملہ شرکت یا مضاربت وغیرہ کسی شرعی عقد کی شرائط پر پورا نہیں اترتا؛ کیونکہ ٹھیکیدار انویسٹر کی رقم کو کاروبار میں نہیں لگاتا، بلکہ کرایہ پر گاڑیاں لے کر یہ رقم ان کے مالکان کو بطورِ قرض دیتا ہے اور اس کو پی ایس او سے اپنے کام کی جو اجرت ملتی ہے، اس میں سے آدھی خود رکھ لیتا ہے اور آدھی یہ رقم دینے والے کو دیتا ہے۔ ٹھیکیدار کا پی ایس او سے اجرت لینا تو واضح ہے، لیکن وہ اس میں سے انویسٹر کو جو حصہ دیتا ہے، اس کی شرعا کوئی درست توجیہ نہیں بنتی۔ اس لیے اس معاملے سے بچنا ضروری ہے۔ اب تک جو انویسٹر ایسے معاملات کر کے نفع لے چکے ہیں، ان کے ذمہ لازم ہے کہ وہ اس نفع کو ثواب کی نیت کے بغیر اپنا ذمہ فارغ کرنے کے لیے صدقہ کریں اور آئندہ ایسے کام سے اجتناب کریں۔   

اس کا بے غبار جائز متبادل یہ ہے کہ انویسٹر اپنی رقم سے گاڑی خرید کر ٹھیکیدار کو کرایہ پر دیں اور اس سے کرایہ لیا کریں، جیسا کہ سوال نمبر (1) کے جواب میں تفصیل سے بیان ہوچکا۔

حوالہ جات
المجلة (ص: 84):
مادة 437: وتنعقد الإجارة بالتعاطي أيضا، كالركوب في باخرة المسافرين وزوارق المواني ودواب الكراء من دون مقاولة، فإن كانت الأجرة معلومة أعطيت، وإلا فأجرة المثل.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (1/ 404):
لأن جواز الإجارة إنما هو بالنظر إلى الرضا، فلما كان تعاطي الطرفين ناشئا عن رضاء كل منهما، كانت لازمة لا محالة، ولذلك فالشروط الواردة في المادتين 450 و 451 معتبرة في الإجارة التي تقع بالتعاطي ( الدر المختار ) . إلا أن الإجارة لا تتوقف على إعطاء الطرفين كالبيع ( انظر المادة 175 ) ( الهندية , مجمع الأنهر , عبد الحليم ) . ولا حاجة إلى مقاولة فيها كالركوب في
باخرة المسافرين وزوارق المواني ودواب الكراء……. الخ
المجلة (ص: 86):
مادة 450: يشترط أن تكون الأجرة معلومة.
مادة451: یشترط في الإجارة أن تکون المنفعة معلومة بوجه یکون مانعا للمنازعة.
رد المحتار (6/ 63):
مطلب في أجرة الدلال،   تتمة:  قال في التاترخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل،  وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم.  وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً لكثرة التعامل، وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام.
المبسوط للسرخسي (14/ 72):
وإذا اشترى بيعا على أن يقرضه فهذا فاسد لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن بيع وسلف ولنهيه صلى الله عليه وسلم عن بيع وشرط والمراد شرط فيه منفعة لأحد المتعاقدين لا يقتضيه العقد وقد وجد ذلك.
الهداية (3/ 48):
ثم جملة المذهب فيه أن يقال …..وكل شرط لا يقتضيه العقد وفيه منفعة لأحد المتعاقدين أو للمعقود عليه وهو من أهل الاستحقاق يفسده، كشرط أن لا يبيع المشتري العبد المبيع؛ لأن فيه زيادة عارية عن العوض فيؤدي إلى الربا، أو لأنه يقع بسببه المنازعة فيعري العقد عن مقصوده، إلا أن يكون متعارفا؛ لأن العرف قاض على القياس.
فتح القدير (6/ 446):
وكذلك لو باع عبدا على أن يستخدمه البائع شهرا أو دارا على أن يسكنها أو على أن يقرضه المشتري دراهم أو على أن يهدي له هدية أو ثوبا على أن يقطعه المشتري قميصا أو قباء فهو فاسد لأنه شرط لا يقتضيه العقد، وفيه منفعة لأحد المتعاقدين، وقد ورد في عين بعضها نهى خاص، وهو نهیه صلی الله علیه وسلم عن بیع وسلف أي قرض.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

      13/جمادی الاولیٰ/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے