82227 | نکاح کا بیان | نکاح کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
۲- خاتون کا خود سے اپنےحقوق سے دستبردار ہوناکیسا ہے؟بشمول وراثت کے ۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
عورت اپنے تمام حقوق سے دستبردار ہوسکتی ہے سوائے میراث کے، لیکن اپنے حقوق سے دستبرداری کے بعد اگر دوبارہ حقوق کا مطالبہ کرلیا تو شوہر کے ذمے ان حقوق کا اد ا کرنا ضروری ہوگا، کیونکہ بیوی اپنے معاف کیے ہوئے حقوق کا دوبارہ مطالبہ کرسکتی ہے۔
اگر میراث سےبھی دستبرداری اختیار کرتی ہے تو شرعا اس کا کوئی اعتبار نہیں ،میراث میں سے اس کا حصہ ختم نہیں ہوتا،کیونکہ میراث شریعت کی طرف سے ایک لازمی حق ہے، وارث چاہے یا نہ چاہے۔
حوالہ جات
قال العلامة ابن عابدين رحمه الله: الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط، وقد أفتى به العلامة الرملي، كما هو محرر في فتاواه من الإقرار نقلا عن الفصولين وغيره، فراجعه إن شئت. (العقود الدرية:2/ 26)
في الفتاوى الهندية: وإن رضيت إحدى الزوجات بترك قسمها لصاحبتها جاز، ولها أن ترجع في ذلك. كذا في الجوهرة النيرة. (الفتاوى الهندية:1/ 341)
وفيها أيضا: المرأة إذا أبرأت الزوج عن النفقة بأن قالت: أنت بريء من نفقتي أبدا ما كنت امرأتك، فإن لم يفرض لها القاضي النفقة فالبراءة باطلة، وإن كان فرض لها القاضي كل شهر عشرة دراهم يصح الإبراء من نفقة الشهر الأول. (الفتاوى الهندية :1/ 553)
قال العلامة الحصكفي رحمه الله: (ولو تركت قسمها) بالكسر أي: نوبتها (لضرتها صح، ولها الرجوع في ذلك) في المستقبل؛ لأنه ما وجب فما سقط. (الدر المختار مع رد المحتار:3/ 206)
عبدالہادی
دارالافتاء، جمعۃالرشید، کراچی
07جمادی الاخری 1445ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبدالهادى بن فتح جان | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |