021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیوی کو گھر ہدیہ کے طور پر دینے اور اس کی وراثت کا حکم
82811میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

اگر میں بیوی کو زندگی میں وہ گھر جس میں ہم  رہ رہے ہیں تحفہ میں دے دوں  تو ایسی صورت میں اگر اس کا مجھ سے پہلے انتقال ہوگیا تو اس کے حصہ دار کون ہوں گے ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرآپ اپنا رہائشی گھر اپنی بیوی کوزندگی میں بطورِ ہدیہ/ہبہ دے دیں اور پھر اس کا آپ سے پہلے انتقال ہو جائے تو اس کے بقیہ ترکہ سمیت یہ گھر بھی اس کے ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہو گا، جس میں سے ایک چوتھائی حصہ آپ کو، دو تہائی اس کی چاروں بیٹیوں کو اور بقیہ ترکہ اس کے دیگر ورثاء کو ملے گا۔

نیزواضح رہے کہ ہبہ کے شرعا مکمل ہونے کے لیے گھر خالی کر کے مالک بنانے کی نیت سے باقاعدہ قبضہ دینا ضروری ہے، جس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ گھر میں موجود اپنا ذاتی سامان بیوی کے پاس بطورِ عاریت رکھوا کر یہ کہہ دیں کہ میں نے یہ گھر آپ کو ہبہ کے طور پر دے دیا یا دوسری صورت یہ کہ آپ یہ گھر معمولی قیمت کے عوض بیوی کو فروخت کر دیں اور پھر اس کی قیمت اس کو معاف کر دیں تو ان دونوں صورتوں میں بیوی اس گھر کی مالک بن جائے گی۔

حوالہ جات
الدر مع الشامية ج:5،ص:290،کتاب الهبة،ط:ايچ، ايم، سعید:
 (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (5/ 692) دار الفكر-بيروت:
وفي الجوهرة: وحيلة هبة المشغول أن يودع الشاغل أولا عند الموهوب له ثم يسلمه الدار مثلا فتصح لشغلها بمتاع في يده.
فقه البيوع للشيخ محمد تقي العثماني(399/1) مكتبة معارف القرآن كراتشي:
اشترط الفقهاء لصحة تسليم الدار أن يكون خالية من أمتعة البائع، فإن كانت مشغولة بها لايتحقق القبض حتى يفرغها، ولكن جاء في الفتاوي الهندية عن فتاوى أبي الليث: فإن أذن للمشتري بقبض الدار والمتاع، صح التسليم، لأن المتاع صار وديعة عند المشتري.

  محمد نعمان خالد

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

18/رجب المرجب 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے