021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شوہرکےباہر(بیرون ملک)جانےاورخرچہ وغیرہ نہ دینےکی وجہ سےعدالت سےخلع لیاتوکیاحکم ہوگا؟
82849طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

 سوال:محترم مفتی صاحب السلام و علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ ..........،مسئلہ یہ ہےکہ میری  بہن کی شادی .......... سے18/01/2019کوہوئی ،شادی کےتین مہینےبعد شوہر........ سعودیہ عرب چلاگیا،وہاں چارسال گزارے،چارسال میں نہ کوئی خرچہ بھیجاااورنہ فون کیایہ چارسال کاخرچہ میرےباپ نےکیا،اس کاایک بیٹا ہے،اس کاخرچہ بھی میرےباپ نےاٹھایا،پھرجب وہ چارسال کےبعد آیاتو 15 دن میرےبہن کےساتھ گزارےاوراس کےبعد گھرسےبھاگ گیا،آج تک 15 مہینےہوگئے،نہ فون کرتاہےنہ کوئی خرچہ بھیجتاہے،ابھی اس مسئلےکاحل شرعاکیساہے؟ہم نےعدالت میں یہی کیس جمع کیاتھا،عدالت نےہمیں یہ پیپرزدیےپرچی کےساتھ ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

منسلکہ عدالتی فیصلہ چونکہ خلع کافیصلہ ہے،اورخلع میں شرعا شوہرکی رضامندی ضروری ہے،اس لیےخلع کامذکورہ بالایک طرفہ عدالتی فیصلہ شرعامعتبرنہیں ہوگا۔بیوی سابقہ شوہرکےنکاح میں ہی رہےگی۔

البتہ چونکہ اسباب فرقت(جن صورتوں میں عورت کو عدالت کےذریعہ فسخ نکاح کاشرعااختیارہوتاہے) میں سےایک سبب تعنت فی النفقہ(گنجائش کےباوجودنفقہ نہ دینا)پایاجاتاہے،لہذابیوی عدالت یاجماعت المسلمین کےذریعہ نکاح فسخ کرواسکتی ہےایسی صورت میں عدالت کےذریعےفسخ نکاح کاطریقہ  حکیم الامۃ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی مشہورکتاب الحیلۃ الناجزہ للحیلۃ العاجزہ میں مذکورہے:

صورت تفریق یہ ہےکہ عورت اپنامقدمہ  قاضی اسلام یامسلمان حاکم اوران  کےنہ ہونےکی صورت میں جماعت مسلمین  کےسامنےپیش کرےاورجس کےپاس پش ہووہ معاملہ کی شرعی شہادت وغیرہ کےذریعہ سےپوری تحقیق کرےاوراگرعورت کادعوی صحیح ثابت ہوکہ باوجود وسعت کےخرچ نہیں دیتا،تواس کےخاوند سےکہاجائےکہ اپنی عورت کےحقوق اداء کریاطلاق دےورنہ ہم تفریق کردیں گے،اس کےبعد بھی اگروہ کسی صورت پرعمل نہ کرےتوقاضی یاشرعاجواس کےقائم مقام ہو،طلاق واقع کردے،اس میں کسی مدت کےانتظا راورمہلت کی باتفاق مالکہ ضرور ت نہیں(الحیلۃ الناجزۃ للحیلۃ العاجزہ" ص 101)

مذکورہ بالاتفصیل کےمطابق فیصلہ کیاجائےتووہ عدالت کافیصلہ شرعامعتبرہوگااگرچہ عدالتی فیصلہ میں خلع لکھاگیاہواوریہ فسخ نکاح  طلاق بائن کےحکم میں ہوگا، اس کےبعدعورت عدت(تین ماہواریاں)گزارکردوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

اوراگرعدالت کےچکرلگانامشکل ہواوریہ گمان ہوکہ عدالت میں فیصلہ میں تاخیرہوگی،جیساکہ آج کل عدالتوں  کی صورت حال ہےتوپھراس کاآسان طریقہ یہ ہےکہ عورت جماعۃ المسلمین(چندعلماء ومفیتان کرام کی جماعت/یامعتبردارالافتاء کےچندمفتیان کرام )کےسامنےدوگواہوں کی موجودگی میں اپنادعوی ثابت کرےاوریہ جماعت یادارالافتاء کےحضرات گواہوں کےذریعہ پورےمعاملےکی اچھی طرح تحقیق کریں،پھرشرعی طریقےکےمطابق  فسخ نکاح کافیصلہ  کردیاجائےتوبھی یہ فیصلہ شرعامعتبرہوگا۔

حوالہ جات
قال اللہ تعالی فی سورۃ البقرة آیت  229 :فان خفتم ألایقیماحدوداللہ فلاجناح علیہما فیماافتدت بہ۔
"زادالمعاد" 2/238 :وفی تسمیتہ صلی اللہ علیہ وسلم الخلع فدیۃ دلیل علی أن فیہ معنی المعاوضۃ ولہذااعتبرفیہ رضاالزوجین ۔
الموسوعة الکویتیة" 29/  54:الطلاق:نوع من انواع الفرقة وھوملک للزوج وحدہ ،ذالک ان الرجل یملک مفارقة زوجتہ اذاوجد مایدعوہ الی ذالک بعبارتہ وارادتہ المنفردة ،کماتملک الزوجة طلب انھاء علاقتھاالزوجیة اذاوجد مایبررذالک،کاعسارالزوج بالنفقة،وغیبة الزوج،وماالی ذالک من اسباب اختلف الفقہاءفیھاتوسعةوتضییقا۔ولکن ذالک لایکون بعبارتھاوانما بقضاء القاضی  الاان یفوضھا الزوج بالطلاق فانھافی ھذہ الحالۃ تملکہ بقولھاایضا۔
وذھب المالکیة الی اٴن واجب الحکمین الاصلاح اولا،فان عجز اعنہ لتحکمالشقاق کان لھماالتفریق بین الزوجین دون توکیل ،ووجب علی القاضی ،امضاء حکمھمابھذالتفریق ،اذااتفقاعلیہ وان لم یصادف ذالک اجتھادہ ۔ بحوالہ "فتاوی عثمانی "2/462 :"
"ردالمحتارعلی الدرالمختار"3/444:وحکمہ ان)الواقع بہ(ولوبلامال)وبالطلاق الصریح)علی مال طلاق بائن(وثمرتہ فیمالوبطل البدل  کماسیجیء۔"المبسوط" 8 /  311:"قال اللہ تعالی فی سورۃ البقرۃ( آیت: 227)وإن عزموا الطلاق فإن الله سميع عليم۔۔۔وهو إشارة إلى أن عزيمة الطلاق بما هو مسموع وذلك بإيقاع الطلاق أو تفريق القاضي ، والمعنى فيه أن التفريق بينهما لدفع الضرر عنها عند فوت الإمساك بالمعروف ، فلا يقع إلا بتفريق القاضي كفرقة العنين ، فإن بعد مضي المدة هناك لا تقع الفرقة إلا بتفريق القاضي بل أولى ؛ لأن الزوج هناك معذور وهنا هو ظالم متعنت ، والقاضي منصوب لإزالة الظلم فيأمره أن يوفيها حقها ، أو يفارقها ، فإن أبي ناب عنه في إيقاع الطلاق وهو نظير التفريق بسبب العجز عن النفقة ۔                                                                                                                                                                                                     

محمدبن عبدالرحیم

دارالافتاءجامعۃ الرشیدکراچی

17/رجب      1445ھج

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے