021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پرانے محراب کی جگہ ذاتی استعمال میں لانا
82280وقف کے مسائلوقف کے متفرّق مسائل

سوال

کیا فرماتے  ہیں علماءِ كرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

  ایک مسجد جس کا محراب زید کے گھر کے اندر ہے، اب مسجد میں توسیع کی گئی،لیکن صرف شمال کی جانب توسیع کی گئی ہے جس کی وجہ سے محراب درمیان میں آگیا تھا تو محراب کو درمیان میں بنانے کےلیے پرانامحراب گراکر تھوڑا شمال کی جانب نیا محراب بنایا گیا جوکہ پرانے محراب سے بڑا اورزیادہ رقبے پر مشتمل ہے،اس نئے محراب کےلیے زمین زید دی ہے،اب سوال یہ ہے کہ

پرانے محراب والی جگہ جو کہ خالی پڑی ہے اس کو زید ذاتی استعمال میں لاسکتاہے یانہیں ؟ کیونکہ اس محراب کی وجہ سے زید کے گھر میں اس جانب تعمیرکرنا یعنی کمرہ بنانا پہلے ممکن نہ تھا، لیکن اب چونکہ محراب شمال کی جانب منتقل ہوگیا ہے اورجگہ خالی ہے تو زید کے گھر میں اس طرف تعمیرات اب ممکن ہوگیا ہے تو کیا ایسے ضرورت کے وقت اس جگہ کو یعنی محراب کی جگہ کو جوکہ خالی پڑھی ہے استعمال میں لانا جائز ہے یا نہیں؟ جواب دیکرممنون فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

محراب عام حالات میں مسجد کا حصہ ہوتا ہے،اورمسجد کے کسی حصے کو ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، لہذا مسئولہ صورت میں پرانے محراب کی جگہ بدستورمسجد رہےگی، زید کےلیے اس کو ذاتی استعمال  میں لانا جائز نہیں ہے، اس کے تینوں اطراف دیوار لگاکر مسجد والی جانب کھلی رکھی جائے، تاکہ مسجد کی ضروریات میں اس کا استعمال ہوسکے اورجگہ بھی محفوظ رہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية - (5 / 321)
داخل المحراب له حكم المسجد، كذا في الغرائب.
وحاشية ابن عابدين (1/645,646)
والمحراب وإن كان من المسجد فصورته وهيئته اقتضت شبهة الاختلاف اهـ ملخصا.قلت: أي لأن المحراب إنما بني علامة لمحل قيام الإمام ليكون قيامه وسط الصف كما هو السنة، لا لأن يقوم في داخله، فهو وإن كان من بقاع المسجد لكن أشبه مكانا آخر فأورث الكراهة...... وفي حاشية البحر للرملي: الذي يظهر من كلامهم أنها كراهة تنزيه تأمل.
البحر الرائق، دارالكتاب الاسلامي - (2 / 28)
وإن كان المحراب من المسجد كما هي العادة المستمرة فصورته وهيئته اقتضت شبهة الاختلاف.
وفی امداد الفتاوی:
امداد الفتاوی جدید ۔ جدید مطول حاشیہ شبیر احمد القاسمی (جلد: 2)
محراب میں کھڑے ہو کر نمازپڑھانا مکروہ ہے گومحراب داخلِ مسجد ہے۔ (تتمہ اولیٰ ص۱۸)
القواعد الفقهية بين الأصالة والتوجيه (6/ 3، بترقيم الشاملة آليا)
إنَّ من القواعد الفقهية قاعدة: الأصل بقاء ما كان على ما كان، أو كما قيل: القديم يترك على قدمه.
والمعنى العام لهذه القاعدة العظيمة: أن ما ثبت بزمان يحكم ببقائه ما لم يوجد بديل على خلافه، يعني: إذا ثبت بزمان في وقت معين أمر معين، فهذا لا يمكن أن يتغير عما هو عليه إلا إذا طرأ عليه طارئ أو دل الدليل، وهذا يسمى عند الأصوليين استصحاب الأصل، وهناك معترك دام بينهم، هل استصحاب الأصل يكون دليلاً أم لا؟ والصحيح الراجح: أنه دليل.
إن هذه القاعدة -أي: أن الأصل بقاء ما كان على ما كان- يتفرع منها أمور وأصول كثيرة، إذا ضبطها المرء فلا يحتاج إلى دليل معها في فعله، وكذا لا يحتاج إلى دليل في عمله بها.
وفی "فتاوی عالمگیری" :
"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لا يجوز، كذا في الغياثية".(2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)
وفی الدر المختارمع رد المحتار:
(الوقف) ھو حبسھا علی حکم ملک اللہ تعالیٰ وصرف منفعتھا علی من أحبّ (در) وفي رد المحتار: قدر لفظ حکم لیفید أن المراد أنہ لم یبق علی ملک الواقف ولا انتقل إلی ملک غیرہ، بل صار علی حکم ملک اللہ تعالی الذی لا ملک فیہ لأحد سواہ (درمختار مع الشامي: ۶/ ۵۲۲، ۵۲۱، ط: زکریا) وفیہ (ص: ۵۳۹) فإذا تمّ ولزم لا یُملکُ ولا یُمَلَّکُ ولا یعار ولا یُرھَن الخ
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 223)
وفي الخلاصة وفي فتاوى النسفي بيع عقار المسجد لمصلحة المسجد لا يجوز وإن كان بأمر القاضي وإن كان خرابا.

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتا ءجامعۃالرشید کراچی

12/6/ 1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے