021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
میراث تقسیم کرنے کا مطالبہ کرنا
81714وصیت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ

ہمارے والد صاحب کے فوت ہو جانے پر ہمارے بڑے بھائی نے سب بہن بھائیوں کو بٹھاکر سب سے رائے لی والد مرحوم کے میراث کے بارے میں سب بہن بھائیوں نے یہ بات طے کی کہ جب تک والدہ حیات ہے ہم میں سے کوئی بھی کسی چیز کا مطالبہ نہ کرے گا والد کے مال میں سارا اختیار والدہ کے حوالے کردیا پھر تین سال بعد بڑے بھائی بیمار ہوگئے اور انہوں نے دورانِ بیماری بھی اس بات کی وصیت لکھی کہ میرے بچے اور میری بیوی میری والدہ کی زندگی میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کریں، والدہ کے فوت ہو جانے پر میرے بچوں کا جو حق بنتا ہو وہ انہیں دے دیا جائے، اب بڑے بھائی بھی فوت ہوگئے اور والدہ زندہ ہے اور بڑے بھائی کی بیوی مطالبہ کررہی ہے اپنے شوہر کے حصے کا جبکہ شوہر کی میراث میں ہمارے بھائی کی بیوی نے ہماری والدہ کو کوئی حصہ نہیں دیا تو کیا ہماری بھابھی کا ہماری والدہ سے اپنے شوہر کے حصے کا مطالبہ کرنا درست ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسئولہ صورت  میں بلاشبہ آپ کی والدہ کا اپنے مرحوم بیٹے کی میراث میں حصہ بنتاہےلہذا آپ کے بھابھی پرلازم ہے کہ اسے ادا کرے،اس کی ادائیگی میں بھابھی کا رکاوٹ بننا شرعاً غلط ہے۔

 اسی طرح آپ کی بھابھی کا اپنے مرحوم سسرکے مال میں اپنے مرحوم شوہر کی میراث کا مطالبہ کرنا بھی درست ہے لہذا آپ  کے والد کی میراث کی تقسیم لازمی ہے،مطالبہ کے باوجود تقسیم نہ  کرنا ظلم ہوگا۔جہاں تک آپ کےمرحوم  بھائی کی وصیت کا تعلق ہے کہ " میرے بچے اور میری بیوی میری والدہ کی زندگی میں کسی چیز کا مطالبہ نہ کریں، والدہ کے فوت ہو جانے پر میرے بچوں کا جو حق بنتا ہو وہ انہیں دے دیا جائے "یہ وصیت غیر شرعی ہے اوردوسروں کے مال سے متعلق ہے،اس لیےکہ مرنے کے بعد بندے کی ملکیت ختم ہوجاتی ہے اورمال ورثہ کی ملکیت میں چلا جاتاہے تو مال جب مرنے والی کی ملکیت میں نہیں رہا تو اس بارے اس کی وصیت بھی نافذ نہیں ہوگی۔

حوالہ جات
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :
«من قطع ميراثا فرضه الله، قطع الله ميراثه من الجنة» (سنن سعيد بن منصور ١/ ١١۸)
وفی مجلۃ الاحکام العدلیة  :
"المادة (1130) إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة وإلا فلا يقسمه."(الکتاب العاشر،ص:۲۱۸،نور محمد کتب خانہ)
 في الشامية:
’’اللإرث جبري لا يسقط بالإسقاط‘‘.(كتاب الدعوى، مطلب واقعة الفتوى:۶۴۴/۱۱، رشيدية).

سیدحکیم شاہ عفی عنہ

دارالافتاء جامعۃ الرشید

22/4/1445ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے