مختلف بینکوں اور جدید مالیاتی اداروں کے سود سے متعلق مسائل کا بیان
سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ
سودی بینک جو چیز/پیسے قرضے پر دیتے ہیں اورکسی قسط کی تاخرپر جرمانہ وصول کرتے ہیں توکیا علماء کے نزدیک
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
واضح رہے کہ مروجہ سودی بینک صرف قرضے دیتےہیں، چیزیں نہیں دیتے اورقسط کی تاخیر پر جرمانہ وصول کرتے ہیں،یہ جرمانہ وصول کرنا بلاشبہ سودکے زمرے میں آتاہے اس لیے کہ یہ رقم مدت کے مقابلے میں زیادہ کی جارہی ہے اورمدت کا عوض وصول کرنا سود ہوتاہے نیز اکثر فقہاء کے نزدیک مالی جرمانہ عائد کرنا جائز نہیں ہے ۔
حوالہ جات
’’ و کان ربوا الجاھلیۃ في الدیون أن یکون للرجل علی الرجل الدین فإذا حل قال لہ أتقضی أم تری فإن قضاہ أخذہ و إلا زادہ في الحق و زادہ في الأجل ‘‘ ( المدونۃ الکبریٰ :۵/۱۸) محشی.
’’ قولہ لا بأخذ مال في المذہب ۔۔۔ و عن أبي یوسف ؒ یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال و عند ھما و باقي الأئمۃ لا یجوز ‘‘ ( رد المحتار : ۶/۱۰۶) محشی .