74640 | نکاح کا بیان | نکاح کے منعقد ہونے اور نہ ہونے کی صورتیں |
سوال
مسئلہ یہ ہے کہ ایک نکاح ہوا جس میں لڑکے کے شناختی کارڈ میں ولدیت تبدیل شدہ تھی اور نکاح کے وقت بھی اصل والد کے نام سے ایجاب وقبول نہیں کرایا گیا ۔ایسا لڑکے والوں نے جان بوجھ کر کیا۔ معلوم یہ کرنا تھا کہ اس طرح کیا نکاح ہو گیا یا نہیں ؟دوسری بات یہ کہ سارا معاملہ جھوٹ پر مبنی تھا ،تو اس بات سے نکاح پر کوئی فرق تو نہیں پڑتا ؟ برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں واضح کریں۔
توضیح از طرفِ سائل:لڑکا خود عقد نکاح کے وقت موجود تھا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگر عقد نکاح کے وقت لڑکا خود موجود ہو اور گواہ اسے جانتے ہوں تو نکاح صحیح ہے، والد کا نام غلط لینے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوگا، البتہ ولدیت کوغلط بیان کرنا اور لکھوانا دھوکااورجھوٹ ہے ،لہذا ایسا کرنا جائز نہیں ،اس میں جھوٹ بولنے اور غیر کی طرف نسبت کا سخت گناہ ہوگا۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: لو غلط في اسمها (قوله: إلا إذا كانت حاضرة إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشارا إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال اقتديت بزيد هذا فإذا هو عمرو فإنه يصح. (ردالمحتار:3/26)
قال العلامہ الحصکفی رحمۃ اللہ علیہ: الكذب مباح لإحياء حقه ودفع الظلم عن نفسه والمراد التعريض لأن عين الكذب حرام قال: وهو الحق قال تعالى - {قتل الخراصون}
وعلق علیہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ: «كل كذب مكتوب لا محالة إلا ثلاثة الرجل مع امرأته أو ولده والرجل يصلح بين اثنين والحرب فإن الحرب خدعة» ، قال الطحاوي وغيره هو محمول على المعاريض، لأن عين الكذب حرام. قلت: وهو الحق قال تعالى - {قتل الخراصون} [الذاريات: 10]- وقال - عليه الصلاة والسلام - «الكذب مع الفجور وهما في النار»(ردالمحتار:6/427)
محمد طلحہ شیخوپوری
دار الافتاء ،جامعۃ الرشید،کراچی
22ربیع الثانی/1443ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد طلحہ بن محمد اسلم شیخوپوری | مفتیان | فیصل احمد صاحب / شہبازعلی صاحب |