78251 | پاکی کے مسائل | موزوں پرمسح کرنے کا بیان |
سوال
کیا جوتوں پر مسح کرنا جائز ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگرپاک جوتے اس طرح ہوں کہ ٹخنوں سمیت پورے پاؤں کو ڈھانپ لیں ، پھر چاہےتسمے والے ہوں یا بغیر تسمے کے ، تو ایسے جوتوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ عام طور پر جو جوتے پہنے جاتے ہیں ان میں پاؤں ٹخنوں تک چھپا ہوا نہیں ہوتا ، لہذا ان پر مسح درست نہیں ۔ فوجی جوتے یا ایسے جوگر جو کہ ٹخنوں کو چھپاتے ہوں تو ان پر بھی مسح کیا جا سکتا ہے۔البتہ اگر جوتے ایسے کپڑے کے ہوں جن سے پانی چھن کر پاؤں تک پہنچ جاتا ہے تو ایسے جوتوں پر مسح جائز نہ ہوگا۔
حوالہ جات
قال العلامۃالحصکفی رحمہ اللہ تعالی : (شرط مسحه) ثلاثة أمور: الأول (كونه ساتر) محل فرض الغسل (القدم مع الكعب).… (و) الثاني (كونه مشغولا بالرجل)…...(و) الثالث (كونه مما يمكن متابعة المشي) المعتاد فيه فرسخا فأكثر.(الدرالمختارمع التنویر440-436/1:)
قال العلامۃ الکاسانی رحمہ اللہ تعالی: وأما الذی یرجع إلی الممسوح ، فمنھا : أن یکون خفاً یستر الکعبین ؛ لأن الشرع ورد بالمسح علی الخفین ، وما یستر الکعبین ینطلق علیہ اسم الخف ، وکذا ما یستر الکعبین من الجلد مما سوی الخف ؛ کا لمکعّب الکبیر و المیثم ؛ لأنہ فی معنی الخف . ( بدائع الصنائع : 141/1)
و فی الفتای العالمکیریۃ:(منھا)أن يكون الخف مما يمكن قطع السفر به، وتتابع المشي عليه ،ويستر الكعبين، وستر ما فوقهما ليس بشرط. هكذا في المحيط حتى لو لبس خفا لا ساق له يجوز المسح إن كان الكعب مستورا. ……والثخين الذي ليس مجلدا ولا منعلا بشرط أن يستمسك على الساق بلا ربط ولا يرى ما تحته وعليه الفتوى. كذا في النهر الفائق.(الفتاوی العالمکیریۃ:1/32)
فی الأصل للإمام محمد رحمہ اللہ تعالی : قلت: أرأیت رجلاً توضأ و مسح علی جوربیہ و نعلیہ
أو علی جوربیہ بغیر نعلیہ ؟ قال: لایجزیہ المسح علی شیء من ذلک. و ھذ ا قول أبی حنیفۃ .
(کتاب الأصل للإمام محمد : 72/1)
محمد مدثر
دارالافتاء ، جامعۃ الرشید ، کراچی
17/ربیع الثانی/1444ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد مدثر بن محمد ظفر | مفتیان | فیصل احمد صاحب / مفتی محمد صاحب / شہبازعلی صاحب |