021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مدارس کے طلبہ کے وظائف{مالی معاونت} سے متعلق چند سؤالات
71448وقف کے مسائلمدارس کے احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں ، مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مدرسہ میں مختلف حیثیت کے طلبہ کرام ہوتے ہیں، مثلا کچھ مالدار اور کچھ متوسط اور کچھ غریب ہوتے ہیں، داخلہ کے وقت یا بعد میں کچھ طلبہ تو اپنی حیثیت بتادیتے ہیں اور کچھ طلبہ اظہار بھی نہیں کرتے،بلکہ محسوس بھی نہیں ہونے دیتے۔اب چند باتیں معلوم کرنی ہیں ،شریعت کی رو سے رہنمائی فرمائیں۔

۱۔ تمام طلبہ کو یکساں( ایک طرح کی رقم کا) وظیفہ دینا درست ہے یا نہیں؟

۲۔درجہ علمیہ کے اعتبار سے بڑےدرجات والوں کو زیادہ اور چھوٹے درجات والوں کو کم وظیفہ دینا درست ہے یا نہیں؟

۳۔صرف غریب طلبہ کو دیں، مالدار طلبہ کو نہ دیں، ان مالدار طلبہ کی اجازت یا بغیر اجازت کے ایسا کرنا شرعا درست ہے یا نہیں؟

۴۔اگروہ غریب طلبہ جو مزدوری کرکے اپنا بسر کرتے ہیں اگر مہتمم کو علم نہ ہو تو ایسی صورت میں مہتمم گناہ گار ہوگا یا نہیں؟

۵۔اگر مہتمم کو علم بھی ہو پھر بھی وہ ان غریب طلبہ کو وظیفہ نہ دیں رقم کی کمی کی وجہ سے یا دوسرے طلبہ کے حق میں کمی کی وجہ سے تو شرعا ایسا کرنا درست ہے یا نہیں؟

۶۔اگر طالب علم  سال کے دوران مدرسہ چھوڑ دے تو اس کا بقیہ مہینوں کا وظیفہ کے اس کے حوالے کرنا لازمی ہے یا نہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

تا ۳۔اگر وظیفہ عمومی چندے یا عطیات کے مد سے دیا جائے تو اس میں مالدار اور غریب طلبہ میں برابری (بلا تفریق سب کویکساں وظیفہ دینا)یاان میں کسی جائز ومعقول وجہ  مثلا فرق درجات یا ضروریات  وغیرہ سےتفریق (ایک کو دینا دوسرے کو نہ دینا)یاتمییز وتخصیص( بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا) سب طرح درست ہے۔

اوراگر وظیفہ زکوۃ اور صدقات واجبہ کے مد سے دیا جاتا ہے اور دینے والے کی طرف سے مصرف کے طور پر مخصوص طلبہ کی تعیین نہ ہو تو ایسی صورت میں اس مدرسہ کےصرف مستحق طلبہ ہی کو دیا جاسکتا ہے، البتہ معقول وجہ سے وظیفہ میں کمی بیشی کا اختیار مہتمم یا اس کے نائب کورہے گا۔

اور اگر وظیفہ کسی خاص جماعت یا افراد (طلبہ) کے لیے مخصوص چندے یا عطیہ سے دیا جاتا ہو یا زکوۃ اور صدقات واجبہ میں سے دیے جانےکی صورت میں دینے والے نے طلبہ متعین کردیے ہوں تو ایسی صورت میں ان میں برابر تقسیم کرنا ضروری ہے،ان  میں تفریق(ایک کو دینا دوسرے کو نہ دینا)اورتمییز وتخصیص( بعض کو کم اور بعض کو زیادہ دینا) جائز نہیں،البتہ اگر دینے والے نے اس قسم کی کوئی تصریح کی ہو یا مقدار کی تعیین میں مہتمم کو اجازت دی ہوتو مہتمم کو اس کی اجازت ہوگی۔

۴و۵۔دینی مدارس کے طلبہ کےوظائف سے مقصد چونکہ انکی مالی امداد ہے،لہذا اگر کوئی غریب طالب علم خود کماتا ہواوراس سے اس کاگذر بسر اچھی طرح ہوتا ہوتو ایسی صورت میں  عمومی وظائف میں اس سےکم ترغریب طلبہ( جوکسی بھی وجہ سے نہ کما تے ہوں) کو ترجیح دینا درست ہےاورخصوصی وظائف میں بلا اجازت ترجیح وتفریق جائز نہیں،لہذااگر مہتم یا اس کے نائب نے تحقیق حال میں کمی کوتاہی نہ کی ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں،ورنہ وہ گناہ گارہے۔

۶۔دوران سال مدرسہ چھوڑنے کی صورت میں عمومی چندے اور عطیات ،مطلق زکوۃ،صدقات واجبہ کی مد سے وظیفہ دینے کی صورت میں بقیہ مہینوں کا وظیفہ دینا ضروری نہیں،البتہ پیشگی دینے کی صورت میں واپس لینے کابھی حق نہ ہوگا،لیکن مخصوص طلبہ کے نام پر وصول شدہ رقم کی صورت میں بقیہ مہینوں کا وظیفہ دینا بھی لازم ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 418)
وذهب قبل تمام السنة لا يسترد منه غلة باقي السنة فصار كالجزية وموت القاضي قبل الحول، ويحل للإمام غلة باقي السنة لو فقيرا وكذا الحكم في طلبة العلم في المدارس درر.
 (قوله: أخذ الإمام الغلة) أي قبض معلوم السنة بتمامها كما في البحر قال في الهندية: إمام المسجد رفع الغلة وذهب قبل مضي السنة لا يسترد منه الصلة والعبرة بوقت الحصاد فإن كان يؤم في المسجد وقت الحصاد يستحق كذا في الوجيز وهل يحل للإمام أكل حصة ما بقي من السنة إن كان فقيرا، يحل وكذا الحكم في طلبة العلم يعطون في كل سنة شيئا مقدرا من الغلة وقت الإدراك فأخذ واحد منهم قسطه وقت الإدراك، فتحول عن تلك المدرسة كذا في المحيط اهـ وقوله: والعبرة بوقت الحصاد ظاهره المنافاة لما قدمناه عن الطرسوسي لكن أجاب في البحر: بأن المراد أن العبرة به فيما إذا قبض معلوم السنة قبل مضيها لا لاستحقاقه بلا قبض قال مع أنه نقل في القنية عن بعض الكتب أنه ينبغي أن يسترد من الإمام حصة ما لم يؤم فيه قال ط: قلت: وهو الأقرب لغرض الواقف. اهـ.
قلت: وينبغي تقييد هذا بما إذا لم يكن ذلك مقدرا لكل يوم لما قدمنا عن القنية إن كان الواقف قدر للمدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاء، لا يحل أجر هذين اليومين وتقدم تمامه قبيل قوله ولو دارا فعمارته على من له السكنى (قوله: فصار كالجزية) أي إذا مات الذي في أثناء السنة لا يؤخذ منه الجزية لما مضى من الحول ويحتمل أن المراد أنه إذا عجلها أثناء السنة ثم أسلم أو مات لا تسترد
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 435)
(قوله لا تسترد المعجلة) أي لو قبض جامكية السنة بتمامها، ومات في أثناء السنة لا يسترد حصة ما بقي لأن الصلة تملك بالقبض ويحل له لو فقيرا كما قدمه الشارح، ولو كانت أجرة محضة استرد منه ما بقي.
(قوله فإنه لا يصح على الأغنياء ابتداء) لأنه لا بد أن يكون صدقة من ابتدائه لأن قوله صدقة موقوفة أبدا ونحوه شرط لصحته كما مر تحريره، وأشرنا إليه أول الباب، وبينا أن اشتراط صرف الغلة لمعين يكون بمنزلة الاستثناء من صرفه إلى الفقراء فيكون ذلك المعين قائما مقامهم، فصار في معنى الصدقة عليه لقيامه مقامهم هذا غاية ما وصل إليه فهمي في هذا المحل فليتأمل

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۴جمادی الثانیۃ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب