021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وقف قبرستان کی فاضل زمین کرایہ پر دینا
79362وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

السلام و عليكم مفتی صاحب درجہ ذیل مسئلے میں شرعی رہنمائی درکار ہے۔ عمرو نے حال ہی میں زید سے کچھ زرعی زمیں خریدی ہے جسکے درمیان میں چند قبور ہیں۔ قبور سے متصل دو ایکڑ کا رقبہ زید نے عمرو کو نہیں دیا بلکہ حامد کو فروخت کیا ہے اور حامد نے قبرستان کے لیے وقف کیا ہے۔ قبور کا علاقہ بہت کم ہے اور بقیہ زمین میں کیلے کا باغ ہے۔ حامد کا کہنا ہے کہ ان دو ایکڑ کا باغ عمرو جاری رکھ سکتا ہے اور منفعت لے سکتا ہے۔ جب بھی قبور کے لیے جگہ چاہیے ہوگی تب عمرو کو کچھ کیلا نکال کر ان دو ایکڑ میں سے جگہ مہیا کرنی ہوگی۔ اب جبکہ یہ دو ایکڑ وقف کے ہوچکے ہیں، کیا عمرو کا ان سے منفعت لینا درست ہوگا؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ عمرو واقف (حامد) کو بطور کرایہ سالانہ کچھ رقم دے کر مذکورہ زمین سے منفعت لے۔ نیز کیا یہ رقم مارکیٹ ریٹ کے حساب سے ہونا ضروری ہے یا برائے نام رقم بھی ہوسکتی ہے؟ اور واقف کے لیے مذکورہ وقف کی زمین کی مذکورہ حاصل شدہ رقم کے حوالے سے کیا شرعی ہدایات ہونگی؟ اگر اسکے علاوہ کوئی صورت ہوسکتی تو رہنمائی فرمائیں۔ جزاك الله خيرا امجد علی حیدرآباد 0332-2655275 Amjadalinizamani@gmail.com

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

وقف ہونےکےبعد وقف کاذاتی استعمال ناجائزہے،البتہ اگروقف زمین کسی کومارکیٹ ریٹ پر کرایہ پر اس لیے دی جائے کہ اس کی آمدن سے قبرستان کی دیکھ بھال ہوسکےاور بوقت ضرورت زمین فارغ کر کے قبرستان کے لیے دستیاب بھی ہوسکےتو ایسی صورت میں اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

حوالہ جات
الفتاوى الهندية (2/ 467):
أرض لأهل قرية جعلوها مقبرة وأقبروا فيها ثم إن واحدا من أهل القرية بنى فيها بناء لوضع اللبن وآلات القبر وأجلس فيها من يحفظ المتاع بغير رضا أهل القرية أو رضا بعضهم بذلك قالوا: إن كان في المقبرة سعة بحيث لا يحتاج إلى ذلك المكان فلابأس به وبعد ما بنى لو احتاجوا إلى ذلك المكان رفع البناء حتى يقبر فيه، كذا في فتاوى قاضي خان
عمدة القاري شرح صحيح البخاري (4/ 179):
فإن قلت: هل يجوز أن تبنى على قبور المسلمين؟ قلت: قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمين عفت فبنى قوم عليها مسجدا لم أر بذلك بأسا، وذلك لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لا يجوز لأحد أن يملكها، فإذا درست واستغنى عن الدفن فيها جاز صرفها إلى المسجد، لأن المسجد أيضا وقف من أوقاف المسلمين لا يجوز تملكه لأحد، فمعناهما على هذا واحد.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۹رجب۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب