021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پلاٹوں کی تعیین سے قبل فائلوں کی خریدوفروخت کا حکم
77457خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

پراپرٹی کے کام میں فائلوں کا کام بھی کیا جاتا ہےجس کا عمل یہ ہے کہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی بنی اور اب مالکان نے طے کیا کے پہلے کل رقبہ میں جتنے بھی پلاٹ بنے یا اس کا کچھ حصہ ان کی فائلیں بیچتے ہیں..واضح رہے کہ اکثر ایسے عمل میں آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کا پلاٹ کس جگہ پر ہو گا اور آپ کو قبضہ کب ملے گا؟لوگ فائلیں خریدتے ہیں اور اضافی پیسے ملنے پر اسے بیچ ڈالتے ہیں۔اب چاہے تو منافع ایک دن یا ایک سال میں ہو.. اب ایسی فائلوں کو پارٹی ڈیلر حضرات خریدتے اور بیچتے ہیں۔ اس کی شرعی حیثیت واضح کر دیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پلاٹ کی فائل کی بیع کے بارے میں درج ذیل تفصیل ہے:

(۱)اگر پلاٹ کاسائز مقرر ہو،لیکن متعلقہ سوسائٹی کا کل رقبہ معلوم ومتعین نہ ہوتو ایسی صورت میں اس طرح فائل کی خرید وفروخت کا معاملہ کسی صورت جائز نہیں۔

(۲)اگر پلاٹ کا سائز اور متعلقہ سوسائٹی کا کل رقبہ دونوں معلوم و متعین ہوں تو ایسی صورت میں اس کی اصل مالک سے خریداری کا معاملہ درست ہوگا، لیکن پلاٹ کی حدود اربعہ  متعین کئے بغیرایسی  فائل کی آگےنفع کےساتھ خریدوفروخت جائز نہیں ہے، البتہ بوقت ضرورت اصل قیمت(قیمت خرید) پر فائل کا تبادلہ ہوسکتا ہے۔

(۳) قرعہ اندازی کے بعد پلاٹ متعین ہوجانے کے بعد ایسی فائل کو  نفع کے ساتھ بھی آگے فروخت کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 544)
(وقد بيع عشرة أذرع من مائة ذراع من دار) أو حمام وصححاه وإن لم يسم جملتها على الصحيح؛ لأن إزالتها بيدهما (لا) يفسد بيع عشرة (أسهم) من مائة سهم اتفاقا لشيوع السهم لا الذراع، بقي لو تراضيا على تعيين الأذرع في مكان لم أره، وينبغي انقلابه صحيحا لو في المجلس ولو بعده فبيع بالتعاطي نهر
 (قوله: من مائة ذراع) قيد به - وإن كان فاسدا عنده - بين جملة ذرعانها، أو لا لدفع قول الخصاف: إن محل الفساد عنده فيما إذا لم يسم جملتها، فإنه ليس بصحيح، وليصح قوله: لا أسهم فإنه لو لم يبين جملة السهام كان فاسدا وحينئذ يكون الفساد، فيما إذا لم يبين جملة الذرعان مفهوما أولويا أفاده
في البحر. (قوله: من دار أو حمام) أشار إلى أنه لا فرق بين ما يحتمل القسمة وما لا يحتملها ح. (قوله: وصححاه إلخ) ذكر في غاية البيان نقلا عن الصدر الشهيد، والإمام العتابي أن قولهما، بجواز البيع إذا كانت الدار مائة ذراع، ويفهم هذا من تعليلها أيضا حيث قالا: لأن عشرة أذرع من مائة ذراع عشر الدار فأشبه عشرة أسهم من مائة سهم، وله أن البيع وقع على قدر معين من الدار لا على شائع؛ لأن الذراع في الأصل اسم لخشبة يذرع بها، واستعير ههنا لما يحله وهو معين لا مشاع؛ لأن المشاع لا يتصور أن يذرع، فإذا أريد به ما يحله، وهو معين لكنه مجهول الموضع بطل العقد درر. قلت: ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي عزمية. (قوله: على الصحيح إلخ) حاصله: أنه إذا سمى جملة الذرعان صح، وإلا فقيل: لا يجوز عندهما للجهالة والصحيح الجواز عندهما؛ لأنها جهالة بيدهما أي المتبايعين إزالتها بأن تقاس كلها فيعلم نسبة العشرة منها فيعلم المبيع فتح. (قوله: لشيوع السهم) ؛ لأن السهم اسم للجزء الشائع، فكان المبيع عشرة أجزاء شائعة من مائة سهم كما في الفتح أي فهو كبيع عشرة قراريط مثلا من أربعة وعشرين، فإنه شائع في كل جزء من أجزاء الدار بخلاف الذراع كما مر. (قوله فبيع بالتعاطي) بناء على أنه لا يلزم في صحته متاركة العقد الأول، وقدمنا الكلام عليه.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 52)
للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا وإلا فلا۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۵محرم۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب