021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دوبھائیوں اور ایک بیوہ میں تقسیم میراث اور اس سے متعلق چند دیگر سؤالات کےجواب
77694میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے چچا کے تین بھائی اور ایک بہن تھی ۔ چچا جان فوت ہو چکے ہیں ۔ اب ان کی ایک بیوہ ہیں اور کوئ اولاد نہیں ہے۔انتقال سے پہلے ایک بہن اور بھائی فوت ہو چکے تھے،انتقال کے وقت ان کے دو بھائی زندہ تھے ان دو بھائیوں میں بھی ایک انتقال کر چکے ہیں ان کا اب ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں دونوں شادی شدہ ہیں، ہمارے چچا کی میراث ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی جس کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات جواب طلب ہیں:

 ۱۔ مذکورہ بالا صورتحال میں میراث کی تقسیم کس تناسب سے ہوگی؟

 ۲۔ بیوہ کی وفات کے بعد بیوہ کی وراثت کس کو ملے گی جب بیوہ کی ایک بہن بھی ہے؟

 ۳۔ اگر ہمارے چچا نے یہ کہا ہو کہ میری وفات کے بعد میری فلاں فلاں چیز فلاں فلاں بندے کو دے دی جائے تو کیا وہ چیزیں اب ان بندوں کو دینی ہونگی؟

 ۴۔ اگر چچا نے کچھ چیزوں کے بارے میں اپنی زندگی میں کسی سے کہا ہو کہ یہ آپ کی ہوئیں لیکن اپنی زندگی میں اس کے حوالے نہ کی ہوں تو وہ چیزیں وفات کے بعد اس بندے کو دے دینی چاہئیں؟

 ۵۔ کیا وراثت کی اشیاء کا مختلف رشتہ داروں میں استعمال جب تک ان کی تقسیم شرعی طریقے سے نہ کی گئ ہو جائز ہے جبکہ دوسرے رشتہ داروں کو اس سے ناراضگی بھی ہوتی ہو؟

 ٦۔ کیا وراثت کی تقسیم وفات کے بعد کرنی لازم ہے یا نہیں؟ مطلب فرض، واجب یا سنت ہے؟ اور اگر نہ کی جائے تو کیا بندہ گناہ گار ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔مرحوم نے اپنی ملکیت میں جائیداد سمیت جو کچھ چھوٹا بڑا سامان چھوڑا ہےاور وہ قرض اور مالی ادائیگی جومرحوم کا دوسروں کے ذمہ واجب الاداء ہے،یہ سب مرحوم کا ترکہ  ہے،جو تمام شرعی ورثہ  میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا،طریقہ تقسیم  یہ ہے کہ پہلے ترکہ میں سے میت کی تجہیز وتکفین کا خرچ الگ کیا جائے گا، بشرطیکہ کسی وارث وغیرہ نے اپنی طرف سے یہ خرچ نہ کیا ہو،اس کے بعد میت کے ذمہ واجب شرعی حقوق قرض وغیرہ اگر ہو تو اس کی ادائیگی کی جائے گی، اس کے بعداگر اس نے کسی قسم کی کوئی  جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی ترکہ میں سے اس کی ادائیگی لازم ہوگی، ان سب کے بعدباقی ماندہ ترکہ میں سب سے پہلے بیوہ(  میت کی زوجہ) کو چوتھائی حصہ(25 فیصد) ملے گا، اس کے بعدباقی 75 فیصد مرحوم کی وفات کے وقت زندہ دونوں بھائیوں کے درمیان برابر تقسیم ہوگا،جس میں سے ہر بھائی  کونصف(37٫5 فیصد) ملے گا۔

۲۔ بیوہ کی اگر صرف ایک بہن ہی ہےاس کے علاوہ کوئی دور نزدیک کاکوئی رشتہ دار نہیں ہے تو اس بہن کو مرحومہ کاسارامال ملے گا۔

۳۔جن لوگوں کے بارے میں مرحوم نے چیزیں دینے کی وصیت کی ہے، اگر وہ مذکورہ ورثہ کے علاوہ ہیں تو پورے مال کے ایک تہائی  تک  وصیت پر عمل کرنا لازم ہے،ورثہ کے حق میں وصیت کا شرعا اعتبار نہیں۔

۴۔اگر صرف زبانی دی ہوں اورباقاعدہ قبضہ نہ کرایاہو تو یہ چیزیں مرحوم کی ملک ہی میں شمار ہوکر اس کا ترکہ بنیں گی۔

۵۔ دوسروں کی اجازت کے بغیر مشترکہ اشیاء سے انتفاع اور ان کااستعمال جائز نہیں۔

۶۔اگر ورثہ میں  کوئی نابالغ یا بہنیں وغیرہ خواتین بھی ہوں جو عموما شرم یا رواج کی خوف سےاپنے حصہ کا مطالبہ نہیں کرتی یاکم از کم کوئی ایک بھی وارث تقسیم ترکہ کا مطالبہ کرے توایسی صورتوں میں  انکار کی گنجائش نہیں،بلکہ فوری تقسیم کرنا ضروری ہے،لہذا تاخیر کرنا ناجائز اور حرام ہے،ورنہ  تقسیم کرنا ضروری نہیں،بلکہ باہمی رضامندی سے بلا تقسیم مشترکہ طورپر ترکہ کا استعمال بھی درست ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 759)
(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير)ككفن السنة أو قدر ما كان يلبسه في حياته ولو هلك كفنه فلو قبل تفسخه كفن مرة بعد أخرى وكله من كل ماله
(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه وإلا فسيان كما بسطه السيد، (وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا ثم) تقدم (وصيته)ولو مطلقة على الصحيح خلافا لما اختاره في الاختيار (من ثلث ما بقي) بعد تجهيزه وديونه وإنما قدمت في الآية اهتماما لكونها مظنة التفريط
 (ثم) رابعا بل خامسا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته)أي الذين ثبت إرثهم بالكتاب أو السنة كقوله - عليه الصلاة والسلام - «أطعموا الجدات بالسدس» أو الإجماع
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 269)
(قوله ولو تهايآ) الهيئة الحالة الظاهرة للمتهيئ للشيء والتهايؤ تفاعل منها، وهو أن يتواضعوا على أمر فيتراضوا به والمهايأة بإبدال الهمزة ألفا لغة، وهي في لسان الشرع قسمة المنافع، وإنها جائزة في الأعيان المشتركة التي يملك الانتفاع بها على بقاء عينها، وتمامه في شرح الهداية

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷صفر۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب