021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مالی جرمانہ کا حکم
78389جائز و ناجائزامور کا بیانخریدو فروخت اور کمائی کے متفرق مسائل

سوال

کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلےکےبارےمیں کہ میں ایک پرائیویٹ سکول میں استادہوں،ہمارے ہاں اسکول میں طلباءجب غیرحاضرہوتےہیں یااسکول تاخیرسےآتےہیں یاطلبہ کایونیفارم ٹھیک نہیں ہوتاتواسکول کی انتظامیہ ان سےمالی جرمانہ لیتی ہے،اس طرح اگرکچھ طلبہ کاپیاں وغیرہ نہیں لکھتےیا امتحان میں فیل ہوجاتےہیں توان سےبھی جرمانہ لیاجاتاہے،جب جرمانہ وصول ہوجائےتوکبھی کبھار طلبہ پر واپس خرچ کیا جاتاہے،جس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں،مثلا(طلبہ جرمانوں کے پیسوں سے سیروتفریح کےلئےجاتےہیں یاکوئی پارٹی منعقدکرتےہیں۔)توکیاایسی صورت میں یہ جرمانہ وصول کرنا جائز ہے؟اس لئےکہ پارٹی میں بعض طلباءایسےبھی شریک ہوجاتےہیں کہ پوراسال ان پرایک روپیہ جرمانہ بھی عائدنہیں ہواہوتاتوان کےلئےاس پارٹی یاسیروتفریح میں شرکت کرناکیساہے؟اسی طرح جب اساتذہ گھنٹی کےبعداسکول تشریف لاتےہیں توان پربھی جرمانہ لگادیاجاتاہے،اس کاکیاحکم ہوگا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مالی جرمانہ لینا جائز نہیں اور مذکورہ حیلہ کہ بعد میں یہ رقم خود طلبہ پر خرچ کی جاتی ہے، اس صورت میں مفید نہیں ،کیونکہ بعض طلبہ جرمانہ کی رقم دینے میں شریک نہیں ہیں اورجن سےجرمانہ لیا گیاہےان کواتنی مقدارکی واپسی یا اس کےبرابرعوض کاحصول یقینی نہیں،اس کا بہتر حل  یہ ہےکہ انتظامی لحاظ سےیہ ضابطہ بناکرداخلہ اورتقرری کےمعاہدہ میں شامل کیاجائےکہ غیرحاضری اورضابطہ کی خلاف ورزیوں کاریکارڈرکھاجائےگا،جہاں تنبیہ کی ضرورت ہوگی تواگلےمہینوں میں فیس میں اضافہ کردیاجائےگایاداخلہ منسوخ کرکےنئی فیس کےساتھ تجدیدداخلہ کردیاجائےگااوراستاذکی تنخواہ یامراعات میں کمی کی جائےگی۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 61):
(لا بأخذ مال في المذهب) بحر. وفيه عن البزازية: وقيل يجوز، ومعناه أن يمسكه مدة لينزجر ثم يعيده له، فإن أيس من توبته صرفه إلى ما يرى. وفي المجتبى أنه كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.
 (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.
وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ.
والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال، وسيذكر الشارح في الكفالة عن الطرسوسي أن مصادرة السلطان لأرباب الأموال لا تجوز إلا لعمال بيت المال: أي إذا كان يردها لبيت المال
الفتاوى الهندية (4/ 458):
وإذا تحقق العذر ومست الحاجة إلى النقض هل يتفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلى القضاء أو الرضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أن العذر إذا كان ظاهرا يتفرد، وإن كان مشتبها لا يتفرد. كذا في فتاوى قاضي خان

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۰جمادی الاولی۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب