021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جہاد کشمیر کی شرعی حیثیت
66050جہاد اور قیدیوں کو غلام بنانے کے مسائلمرتد کے مسائل

سوال

 کشمیر کا جہاد شرعی ہے جو کہ ایک زمین  کےٹکڑے  کے حصول کی خاطرکیا جارہاہے میرا سوال ذرامشکل اور تلخ ہے کشمیر کے جہاد کے بارے میں کیا رائے ہے؟ کیازمین کے ایک  ٹکڑے کےحصول کی  خاطر اور کشمیر کو پاکستان بنانے کےلیے لڑاجارہاہے؟ جس کا اسلام اور دین سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے؟قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں

(usmanriaz960@gmail.com

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مسلمانوں کے کسی  خطے پر کفار قبضہ  کرلیں یا  قبضہ  کے لئے پیش قدمی  کررہے ہوں  تو اس خطہ  کے رہنے  والے  مسلمانوں پر کفار کے مقابلے  میں جہاد کرنا  فرض ہوجاتا ہے ، اگر وہ مقابلے کے لئے کافی نہ ہوں  یاسستی کریں   تو اس  کے  بعد  جو قریب تر مسلمان ہیں ان پر  یہ فریضہ عائد  ہوتاہے ،اس طرح  الاقرب فالاقرب  کے اعتبار  سے پورے عالم اسلام کے مسلمانوں پر  یہ فریضہ عائد  ہوجاتا ہے ، یہی  حکم  اس  وقت بھی ہے جب  کچھ مسلمانوں کو  کفار  نے قید  کررکھا  ہو ۔

         اس تفصیل کے پیش نظر  جہاد  کشمیر  فرض ہے ،کیونکہ  مسلمانوں کے خطے پر کفار نے  زبردستی  غلبہ حاصل کرکے اپنی حکومت قائم کررکھی ہے ،جو مسلمانوں پر بدتریں  ظلم  ڈھا رہی ہے ،جس کی تفصیل  ذرائع ابلاغ  کے ذریعہ  پوری  دنیا کے سامنے  آتی رہتی ہے ،ہزاروں  مسلمان  ہندوستان کے جیلوں میں  ظلم  وبربریت کاشکار  ہیں ،ماؤں  ،بہنوں کی اجتماعی  وانفرادی  عصمت دری  کے واقعات  روز  مرہ کامعمول ہیں ۔لہذا اس جہاد کے بارے میں یہ کہنا  کہ  یہ لڑائی زمین کے ایک  ٹکڑے کے حصول کے لئے ہے یا کشمیر کو پاکستان بنانے کے لئےلڑی جارہی ہے ، یہ انتہائی  جہالت   اور  جہاد کی شرعی  حیثیت  سے ناواقفیت کی دلیل ہے ،سائل کے ذمہ لازم ہے کہ کشمیر میں کفار کی طرف سے  ہونے والے ظلم وستم  کے  حالات سے واقفیت  حاصل کریں  اور جہاد  جو اسلام کا ایک مقدس   فریضہ  ہے اس کے متعلق  علم حاصل کریں ابتک کے غلط  خیالات سے توبہ  کریں ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 124)
قلت: وحاصله أن كل موضع خيف هجوم العدو منه فرض على الإمام أو على أهل ذلك الموضع حفظه وإن لم يقدروا فرض على الأقرب إليهم إعانتهم إلى حصول الكفاية بمقاومة العدو ولا يخفى أن هذا غير مسألتنا وهي قتالنا لهم ابتداء فتأمل (قوله بل يفرض على الأقرب فالأقرب إلخ) أي يفرض عليهم عينا وقد يقال كفاية بدليل أنه لو قام به الأبعد حصل المقصود فيسقط عن الأقرب، لكن هذا ذكره في الدرر فيما لو هجم العدو وعبارة الدرر وفرض عين إن هجموا على ثغر من ثغور الإسلام، فيصير فرض عين على من قرب منهم،   

  احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

 دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

١۸رجب ١۴۴۰ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب