021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اپنی زندگی میں اپنا مال اولاد میں تقسیم کرنے کا حکم
78075ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

سائل کےدوبیٹےاورایک بیٹی ہےاوربیوی بھی حیات ہے،سائل کےپاس ایک مکان تھاجو کہ اس نے 45لاکھ میں سیل کیا،اب وہ اپنے بچوں میں ان پیسوں کوتقسیم کرناچاہتا ہے،جبکہ سائل اپنی بیوی کےساتھ اپنےبیٹوں کےپاس ہی رہےگااور بیٹےانہیں پیسوں میں اورپیسےملا کر گھر بنائیں گے،اب سائل ان پیسوں کوکیسےتقسیم کرے؟فرض،واجب،سنت،اور افضل میں وضاحت فرمادیں،اگر افضل کو چھوڑ دیا جائے توکیاکوئی گناہ گارہوتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زندگی میں جائیداد کی تقسیم ہبہ کہلاتا ہے اورعام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ  میں برابری ضروری ہے،  اگر اولاد میں سےکسی کو ضررپہنچانے کی نیت سے کم دیا جائے تو یہ مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے   اور اگر  ضرر پہنچانے کی نیت  نہ ہو اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہ ہو تو کسی کو کم دینا ،کسی کو زیادہ دینامکروہ تنزیہی ہے،لہذابیٹوں اور بیٹیوں برابرحصہ دینا چاہئے،اگرچہ بعض اہل علم کی نزدیک لڑکے کو لڑکی کے حصہ کے دوگنادینا بھی جائز ہے، البتہ کسی دینی قابلیت یا خدمت گزاری کی وجہ سے کسی کو زیادہ  دینا بھی جائز ہے،لیکن اولاد میں سے کسی کوبالکل محروم کرنا  جائز نہیں ۔

بیوی کا خرچہ ،رہائش ،علاج وغیرہ شوہر کے ذمہ لازم ہے، لہذا جائیداد تقسیم کرتے وقت اس کا خیال رہے کہ بیوی کے اخراجات برداشت کرنے کا کوئی انتظام ہو۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 696)
وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم
 (قوله: وإن قصده) بسكون الصاد ورفع الدال، وعبارة المنح: وإن قصد به الإضرار وهكذا رأيته في الخانية (قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي.
الفتاوى الهندية (4/ 391)
 ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۵ربیع الثانی۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب