021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زندگی میں اولاد میں مال تقسیم کرنے کا صحیح طریقہ
75402میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

جناب  مفتی صاحب  میرا  سوال یہ ہے کہ اگر  ماں باپ  اپنی زندگی  میں اولاد  کو مال بانٹنا چاہیں  تو اس مال کو  کیسے تقسیم کریں ؟اگر  کچھ مال اپنے  لئے بھی رکھنا  چاہیں ،ہمارے   دو بیٹے  اور  ایک بیٹی ہیں، اور تینوں  شادی شدہ  بچوں  والے ہیں ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

میراث  اس مال کو کہاجاتا  ہے جومرتے وقت   انسان کی ملک  میں   موجود ہو  ،لہذا  جب تک آپ  حیات  ہیں آپ  کے مال  میں  میراث کے احکام  جاری نہیں ہونگے ،یعنی      زندگی میں   مال تقسیم کرکے بیوی  بچوں  کے حوالے کرنا آپ  کے ذمہ لازم نہیں ہے ، تاہم اگر  آپ  اپنی   زندگی میں   اپنا مال بیوی  بچوں  میں  تقسیم کرنا  چاہتے ہیں  تو اس کی   شرعی  حیثیت  ھبہ  ﴿ گفٹ ﴾  کی ہوگی ۔

اس صورت میں اولاد میں برابری کرنا مستحب  ہے، بلا کسی وجہ  ترجیح ﴿ یعنی دینداری ،احتیاج ،خدمت گذاری وغیرہ﴾کے اولاد میں سے کسی کو مال کم دینا اورکسی کو زیادہ دینا مکروہ ہے۔

لہذا صورت مسئولہ  میں ھبہ کا طریقہ  یہ ہے کہ آپ اپنے لئے  حسب ضرورت مال  رکھ لیں ،اور بیوی کو بھی بقدر ضرورت مال دیدیں  اس کے بعد بقیہ مال کو  مساوی  3 حصوں  میں تقسیم کرکے  تینوں  اولاد میں سے ہر ایک کو ایک ایک  حصہ دیدیں ۔

اوراگرمیراث کے  اصول  کے مطابق تقسیم   کرنا چاہیں  تواس کی بھی   گنجائش  ہے۔ اس صورت  میں آپ اپنے لئے حسب  ضرورت مال رکھ لینے کے بعد جو مال  بیوی  بچوں میں  تقسیم کرنا چاہیں   اس مال کو  اٹھ  حصوں میں تقسیم کرکے   بیوی کو ایک  دیں ،اس کے  بعدباقی  مال کو  مساوی  پانچ  حصوں  میں تقسیم کرکے  لڑکوں کو دو دو حصے  اور لڑکی کو ایک  حصہ  دیں ۔

ایسی  صورت میں   آپ کے انتقال  کے  وقت   جومال  آپ  کی ملک میں  موجود  ہوگا   وہ میراث کے اصول پر دوبارہ  تقسیم  ہوگا ۔

حوالہ جات
رد المحتار (24/ 9)
﴿و ) شرائط صحتها ( في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول ) كما سيتضح .
رد المحتار (24/ 20)
( وتتم ) الهبة ( بالقبض ) الكامل ( ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به )
 قال الامام  عبد  الرشید  البخاری  رحمہ اللہ  وفی  الفتاوی  رجل  لہ  ابن وبنت ،اراد  ان یھب  لھما   شيئا فالافضل  ان یجعل  للذکر  مثل  حظا الانثیین  عند محمد  رحمہ اللہ  تعالی ، وعند ابی یوسف   رحمہ اللہ   بینھما  سواء  وھو  المختار  لورود  الاثار ،ولو وھب  جمیع  مالہ لابنہ  جاز  فی  القضا ء وھو اثم  ثم نص محمد   رحمہ اللہ  تعالی ھکذا  فی  العیون  ، ولواعطی بعض ولدہ  شئیا دون  البعض لزیادة  رشدہ  لا باس بہ وان کانا سواء لاینبغی ان یفضل ﴿ خلاصة  الفتاوی ص/400﴾          

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید    کراچی

١۵ جمادی  الثانیہ  ١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب