021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سسر کا اپنی بیٹی کے لئے الگ گھر کے مطالبے کاحکم
80854نان نفقہ کے مسائلبیوی کا نان نفقہ اور سکنہ ) رہائش (کے مسائل

سوال

مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا فرماتے ہیں: میرے شادی کو 1 سال ہوگئے ، مجھے اللہ تعالیٰ نے شب قدر والے دن ایک بیٹے سے نوازا اور اس کے دوسرے دن ( 27 رمضان المبارک) میں سسر نے اپنی بیٹی اور میرے 3 چھوٹی سالیوں نے اپنی بڑی بہن کو مجھ سے جدا کردیا اور وہ اپنی مرضی سے چلی  گئی، وجہ میں نے جامعہ بنوریہ سے تفصیلاً فتویٰ بھی لیا ہے (فتوی نمبر : 144410100706) میں نے اسے نان نفقہ دینا بند کردیا بچہ کا بھی، اور کہا کہ جب وہ واپس آئیگی تب جتنا نفقہ بچے کا ادا کرنا پڑے کروں گا ، کیوں کہ میری اہلیہ خود والدین کے گھر پر لیڈیز کا کام کرکے پیسے کماکے بیٹے کا دیکھ بال کر رہی ہے ، اس کے 40 دن گزرنے کے بعد میں نے اپنی اہلیہ کے گھر جاکر اپنی اہلیہ سے براہِ راست ملاقات کی اور بات کی اس کی ڈیمانڈ ہے کہ میں اسے کرایہ کے گھر لیکر دوں جبکہ استطاعت نہ ہونے کے باوجود اپنے گھر رہائش کرنے کو اسے منا بھی لیا تھا اور میں نے اپنی اہلیہ کو سمجھایا ہے کہ ( اپنے گھر میں الگ کمرہ ، واش روم اٹیچ باتھ روم اور کچن دینے کو تیار ہوں ) اور میرا حق یہاں تک ہے یعنی الگ گھر کا مطالبہ ناجائز ہے تو اس بات میں میری اہلیہ نے کہا کہ فتویٰ دکھا دیں پھر فیصلہ کروں گی ،جب عصر کی نماز کے بعد فتویٰ لیکر گیا تو اس کے والد یعنی میرا سسر نے مجھ سے بد کلامی کی جو میں نے جامعہ بنوریہ میں سوال بھی کیا (فتوی نمبر 144501100246) اب سسر کا کہنا ہے کہ الگ گھر میں جب اچھی طرح سے کمائے گا اور اچھا ہوجائےگا وغیرہ وغیرہ جبکہ اللہ گواہ ہے آج تک میں کسی سے بھی بدتمیزی سے پیش نہیں آیا اور نہ آئندہ کرنے کا ارادہ ہے اور یہ دھمکیاں دینا کہ ہمیں خلع پیپر بھی نہیں چاہیے اور لڑکی بھی اس گھر میں نہیں دینی ،اگر برداشت کرنے کی تحمل نہیں ہے لڑکا خود آکے 2 گواہوں کے ساتھ طلاق دے دیں ( حق مہر بھی ملے بچے کا خرچہ بھی ملے ) اب تک ساڑھے تین مہینے گزر گئے اپنے گھر گئے ہوئے اور میرے لیے اس گھر پر جانے پر پابندی عائد کرنا، یہ کوئی  انصاف کی بات ہے ؟ میں نے اپنے بڑوں کے ذریعے کہا کہ اگر میرا سسر اپنی بیٹی کو واپس بھیج دیں پھر ٹھیک ہے ورنہ میرا حق مہر مجھے واپس کردیں کیونکہ جب وہ خود زندگی بسر کرنا نہیں چاہتی اور میں نے اپنی اہلیہ کو 50 ہزار روپے دیا تھا جو میں نے اپنے لیے بیڈ روم وغیرہ کے لیے دیا تھا ( زندگی میں ساتھ نبھائیگی) اگر وہ میرے ساتھ زندگی کرنے کو تیار نہیں یا والدین روکے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے رہنمائی فرمائیں! عین نوازش ہوگی!

 

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یاد رہے کہ   بیوی اگر متوسط گھرانہ  کی  ہو  تو ایسی صورت میں    شوہر پر واجب ہے  کہ  بیوی  کو  ایک مستقل کمرہ  کے علاوہ  باورچی خانہ  اور   بیت  الخلاء  بھی  الگ  کرکےدے ،اگر   بیوی مسکین  ہوتو  کمرہ تو  مستقل  ہونا   ضروری  ہے   لیکن باورچی خانہ  اور  غسلخانہ   مستقل ہونا  ضروری نہیں ، بلکہ  مشترک  ہوں  تو بھی مضائقہ   نہیں ۔

 دوسری  بات  یہ ہے کہ بیوی  اگر  شوہر کی نافرمانی  کرکے   شوہر کو  چھوڑ کراپنی میکے چلی جائے    توواپس  آنے تک  بیوی کاخرچہ تو شوہر  کے ذمے  لازم نہیں ہوتا   لیکن   بچے  کا  خرچہ  باپ  کے ذمہ  لازم  ہوتا  ہے۔

اس تفصیل کی روشنی میں     اگر شوہر  بیوی   کو  نان نفقہ  اور  رہائش   وغیرہ لازمی  حقوق دینے  کے لئے  تیار  ہے   تو  بیوی    کو چاہئے  واپس آکرشوہر کے  گھر  کو آباد کرے ،بچے اور  شوہر کی  خدمت کرے ، ضد میں آکر  گھر کو برباد نہ کرے، شوہر  کو بھی  چاہئے   گھر آباد کرنے  کی پوری کوشش  کرے ،اسی میں دونوں کے  دین   ودنیا   کا فائدہ  ہے   دونوں اسی پر عمل کریں ۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 599)
(وكذا تجب لها السكنى في بيت خال عن أهله)
سوى طفله الذي لا يفهم الجماع وأمته وأم ولده (وأهلها) ولو ولدها من غيره (بقدر حالهما) كطعام وكسوة وبيت منفرد من دار له غلق. زاد في الاختيار والعيني: ومرافق، ومراده لزوم كنيف ومطبخ، وينبغي الإفتاء به بحر (كفاها) لحصول المقصود هداية. وفي البحر عن الخانية: يشترط أن لا يكون في الدار أحد –من أحماء الزوج يؤذيها، ونقل المصنف عن الملتقط كفايته مع الأحماء لا مع الضرائر فلكل من زوجتيه مطالبته ببيت من دار على حدة.
 (قوله بقدر حالهما) أي في اليسار والإعسار، فليس مسكن الأغنياء كمسكن الفقراء كما في البحر؛ لكن إذا كان أحدهما غنيا والآخر فقيرا؛ فقد مر أنه يجب لها في الطعام والكسوة الوسط، ويخاطب بقدر وسعه والباقي دين عليه إلى الميسرة، فانظر هل يتأتى ذلك هنا (قوله وبيت منفرد) أي ما يبات فيه؛ وهو محل منفرد معين قهستاني. والظاهر أن المراد بالمنفرد ما كان مختصا بها ليس فيه ما يشاركها به أحد من أهل الدار (قوله له غلق) بالتحريك: ما يغلق ويفتح بالمفتاح قهستاني.
 
(قوله زاد في الاختيار والعيني) ومثله في الزيلعي، وأقره في الفتح بعدما نقل عن القاضي الإمام أنه إذا كان له غلق يخصه وكان الخلاء مشتركا ليس لها أن تطالبه بمسكن آخر (قوله ومفاده لزوم كنيف ومطبخ) أي بيت الخلاء وموضع الطبخ بأن يكونا داخل البيت أو في الدار لا يشاركها فيهما أحد من أهل الدار. قلت: وينبغي أن يكون هذا في غير الفقراء الذين يسكنون في الربوع والأحواش بحيث يكون لكل واحد بيت يخصه وبعض المرافق مشتركة كالخلاء والتنور وبئر الماء ويأتي تمامه قريبا

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

١۲ محرم الحرام   ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے