021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
راستے میں ملنے والے موبائل فون کاحکم
80830گری ہوئی چیزوں اورگمشدہ بچے کے ملنے کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

میں  ایک عام سڑک   کے کنارے  کھڑا  تھا ،وہاں  سے  ایک   موٹرسائکل سوار  گذررہا   تھا،اسکےجیب سے   ایک موبائل  گڑ پڑا  اس کو پتہ   نہیں  چلا ،وہ آگے ایک   دکان کے اندر چلاگیا ،میں  نے 5منٹ تک  انتظار کیا  کہ  یہ بندہ  واپس آے گا  ،لیکن وہ واپس نہیں  آیا  ، میں  نے موبائل اٹھا  لیا  اورلیکر  گھر   چلاگیا ،سال بھر موبائل  کو  استعمال کیا   ،اس کے بعد   میں  مدرسہ   پڑھنے جارہاتھا اس لئے موبائل  کو  فروخت کردیا ، پھر ان  پیسوں   سے مدرسہ میں  استعمال  کے لئے  دو عدد چھوٹےموبائل   اور ایک  بیگ ایک   رومال ، دوٹوپیاں اور   ایک ہاتھ والی  گھڑی خریدی ، یعنی  موبائل  فروخت کرکے جو رقم  ملی تھی  اس سے مدرسہ کےاخراجات پورے کرلئے۔

میرےلئے اب شرعا   کیاحکم  ہے ، میں موبائل والے   کو نہیں جانتا ، مذکورہ چیزیں میری ضرورت کی ہیں  ،میں غریب آدمی ہوں،اگر ان چیزوں کو فروخت کرکے صدقہ کردیتا   ہوں تو   میرے پاس استعمال کے لئے نہیں رہیں گی،اب کیاکرناچاہئے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں جب آپ نے مالک  کی جیب سے  موبائل گرتے ہوئے دیکھاتو اس وقت تک آپ کو مالک معلوم  تھا ، اس لئے  آپ کی ذمے داری تھی کہ  فوری  طورپر مالک کو اطلاع   دے کر موبائل  اس تک پہنچاتے ۔ لہذا اگر اختیار کے باوجود آپ نے ایسا  نہیں کیا اورموبائل   اٹھا  کر گھر لے گئے تو آپ گناہ گار ہوئے  ، گھر لیجانے  کے بعد  بھی اس پر گواہ بناناکہ یہ موبائل میں نے مالک تک  پہنچانے  کی نیت سے  اٹھایا ہے ،پھر تمام ممکنہ جگہوں پر اعلان کے ذریعہ مالک  کو تلاش کرکے اس کا موبائل اس تک پہنچانے  کی   کوشش  کرنا  آپ پر  لازم  تھا ، جبکہ  مسئولہ  صورت میں آپ نے ایسا  کچھ  بھی نہیں کیا   بلکہ خود ہی موبائل کا استعمال شروع کردیا ،اس طرح  دوسرے  کا موبائل  استعمال کرنا بھی ناجائز عمل ہوا ، پھرسال بھر استعمال  کے بعد  موبائل کو آگے  فروخت  کردیا  ،جبکہ دوسرے  کے مال  کو اس  کی اجازت  کے بغیر آگے فروخت کرنا یہ بھی ناجائز اورحرام عمل  ہے ،اس لئےمسئولہ  صورت میں آپ نے کئی ناجائز کام  کئے، اب  آپ  کے ذمے لازم   ہے  کہ ان تمام ناجائز کاموں پرتوبہ و استغفار کریں اور  موبائل کا ضمان بھی ادا  کریں ۔ضمان  ادا کئے بغیر  مذکورہ   چیزوں  کا استعمال  آپ کے لئے جائز نہیں ۔

ضمان ادا کرنے کاطریقہ  یہ ہے کہ  جس  دن  آپ نے  موبائل اٹھا یا  ہے،اس دن  اس موبائل کی مارکیٹ  میں کیا  ریٹ  تھی ،یعنی اگر آپ استعمال  کی بجائے  اس موبائل کو فروخت کردیتے تو  کتنی قیمت  ملتی  وہ متعین کریں ،پھرمالک کو تلاش کرنے کی ممکنہ  صورتیں  استعمال کرکے  مالک تک    یہ رقم  پہنچانے  کی کوشش  کریں ، اگر کوشش کے باوجود  مالک  نہ مل سکے  اوراس کے ملنے سے  بالکل  مایوسی ہوجائے  تو یہ  رقم اس کی طرف سے  مساکین پر  صدقہ کی جائے ، صدقہ  کا اجر موبائل  کے مالک کو ملےگا۔

 نوٹ ؛ اگر  پوری  رقم یکمشت  صدقہ  کرنے  کی استظا عت  نہ ہو  توآپ کے  پاس موجود  چیزوں  کو  فروخت کردیں  یا قیمت  لگا  کرانہی  چیزوں کو صدقہ کردیں ، پھر جو رقم اصل قیمت سےکم پڑ جائے  بعد  میں تھوڑے  تھوڑے کرکے اداکردیں  ، تاکہ آپ کے ذمے سے ضمان ساقط  ہوجائےاور عند  اللہ بری الذمہ  ہوجائیں۔

حوالہ جات
تاکہ آپ کے ذمے سے ضمان ساقط  ہوجائےاور عند  اللہ بری الذمہ  ہوجائیں۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 276)
وفي البدائع وإن أخذها لنفسه حرم لأنها كالغصب  الی قولہ۰۰۰۰
 (فإن أشهد عليه) بأنه أخذه ليرده على ربه ويكفيه أن يقول من سمعتموه ينشد لقطة فدلوه علي (وعرف) أي نادى عليها حيث وجدها وفي الجامع (إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة) والثمار (كانت أمانة) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد۔
 الی قولہ  ۰۰۰قوله: وإلا) أي وإن لم يأمن بأن شك، فلا ينافي ما في البدائع؛ لأنه فيما إذا أخذها لنفسه، فإذا تيقن من نفسه منعها من صاحبها فرض الترك، وإذا شك ندب أفاده ط لكن إن أخذها لنفسه لم يبرأ من ضمانها إلا بردها إلى صاحبها كما في الكافي (قوله: لأنها كالغصب) أي حكما من جهة الحرمة والضمان، وإلا فحقيقة الغصب رفع اليد المحقة ووضع المبطلة، ولا يد محقة هنا تأمل
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 109)
حتى إن الغاصب لو باع المغصوب ثم ضمنه المالك جاز بيعه أما لو شراه الغاصب من مالكه أو وهبه له أو ورثه منه لا ينفذ بيعه قبله، ولو غصب شيئا وباعه فإن ضمنه المالك قيمته يوم الغصب جاز بيعه لا لو ضمنه قيمته يوم البيع. اهـ.

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

       دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی  

۸محرم  الحرام  ١۴۴۵ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے