021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عدد طلاق میں میاں بیوی میں اختلاف کا حکم
74770طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

طلاق   کے معاملے میں میاں  بیوی  کا اختلاف ہے ، دونوں کا موقف الگ  الگ   ہے  ۔

لڑکی  کا موقف   یہ ہے کہ    میرے  شوہر نے مجھے پہلے بھی ایک طلاق   دی تھی ،اس وقت میرے پاس    صرف میرا دو سالہ بیٹا   تھا ،اس  کے علاوہ  اور کوئی نہیں تھا ، اس کا میں  نے کسی سے ذکر نہیں کیا ، اور   ہم باقاعدہ    ساتھ رہنے لگے ، اس کے بعد آج  سے تقریبا   دو سال پہلے موبائل کی وجہ سے  شک  کی بناء پر   ہماری لڑائی  ہوئی ، تو اس وقت دو طلاقیں دیں ، جس  کا اقرار   میرے شوہر  بھی    کرتا  ہے ، طلاق   دینے باوجود  میں  اپنے شوہر کے گھر میں  ہی رہی ، اس  کے اگلے  دن دو بارہ ہماری لڑائی  ہوئی ، تو مجھے یہ کہا کہ   مین تیرا فیصلہ  کردیا ہے اور  تجھے آزاد  کردیا  ہے ۔ لیکن میں  نے اپنے شوہر کی  باتوں میں آکر  بچے کی خاطر  اپنا رشتہ بحال رکھا ، مگر اب مجھے احسا س ہوا  ہے  کہ میں غلطی پر ہوں ، ہمارا ساتھ رہنا گناہ  ہے ،اس لئے  میں الگ ہو نا  چاہتی  ہوں ۔

لڑ کے کا  موقف    میری  بیوی   جو پہلی ایک طلاق  کا  اقرار  کررہی  ہے ،  وہ  طلاق  میں نے نہیں دی ہے ، اس پر میں قسم اٹھانے کے لئے تیار ہوں ، البتہ بعد میں لڑائی کے وقت    جن طلاقوں کا ذکر ہے میں اس کا اقرار  کرتا ہوں  کہ میں  نے دو طلا قیں دی ہے ، اس کے بعد  اگلے دن   جب ہماری لڑائی ہوئی  اس وقت میں نے یہ جملہ   کہا تھا   کہ تم اپنا گھر جانا  چاہتی ہو  تو  چلی جاؤ  ۔  اس جملہ  سے میری  مراد  طلاق  کی نہیں تھی ۔

اسوقت    ہم نے  دارالا فتا  سے فتوی  لیاتھا، اس میں  صرف دو طلاقوں  کا ذکر  تھا ، اگلے  دن کی لڑائی  کا ذکر نہیں  کیا تھا ، دارالا فتا  ء کی طرف سے جواب دیا گیا   کہ دو طلاقیں    دی ہے   تو  دوطلاقیں ہوئیں ہیں، اس سے  رجوع کیاجاسکتا  ہے ، انہوں  رجوع کرکے ساتھ رہنا شروع  کردیا ۔

 اس پوری تفصیل کے بعد  دریافت  طلب امور درج ذیل ہیں ۔

١۔ بیوی  کے قول  کے مطابق پہلے ایک طلاق  بعد میں   دو طلاقیں  کل تین  طلاقیں  ہوگئی ، اور بعد میں  یہ جملہ   کہ میں  نے  تیرا فیصلہ  کر دیا  ہے ، اور تجھے آزاد  کردیا ۔ ان تینوں باتوں کے لحاظ سے   اس عورت پر  کتنی طلاقیں  واقع ہوئیں ؟

۲۔ شوہر کے قول  کے مطابق اگر دو  طلاقیں  ہوئی  تو  بیوی کے موقف کے بارے میں کیا حکم  ہوگا ؟ کیونکہ  وہ  تو تین  طلاقوں کا اقرار  کر رہی  ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح  ہوکہ  مفتی غیب نہیں جانتا  بلکہ سوال  میں لکھی  ہوئی تحریر کے مطابق جواب دیا جاتا  ہے ، لہذا  مسئولہ  صورت میں اگر واقعی شوہر نے  طلاق کے الفاظ تین دفعہ یا اس سے  زائد دفعہ  کہے ہیں   ،تو اس عورت پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ،میاں بیوی دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوچکے ہیں ، لہذا اب اس کےبعد عورت اور مرد کا  اکٹھے میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گذار نا جائز نہیں ،اور  حلالہ شرعیہ کے بغیر پہلے شوہرسے  دوبارہ  نکاح بھی  نہیں ہوسکتا ہے ۔ حلالہ شرعیہ کا مطلب  یہ ہے  کہ

﴿  عدت پوری ہونے کےبعد عورت کی کسی  دوسری  جگہ شادی  ہوجائے اور وہ شوہر  ہمبستری  کے بعد اس کو طلاق  دیدے یا اس کا انتقال  ہوجائے  اس طرح دوسرے شوہر  کی طرف سے طلاق  یا وفات کی عدت  گذار نے کے بعدآپس کی رضامندی  سےپہلے  شوہر کے ساتھ    نکاح جائز ہوگا ﴾

لیکن اگر  شوہر  پہلی مرتبہ کی طلاق  کا  انکار  کر رہاہے اور اس  کے  بارے میں حلف بھی اٹھا  لیاہے تو ایسی صورت میں    قضاء  ﴿شریعت کے عدالتی  احکام کی روسے﴾   تیسری طلاق نہیں  ہوئی ۔لیکن دونوں صورتوں میں   اگر بیوی  کو یقین ہے  کہ شوہر نے اس  کوپہلی مرتبہ  ایک  اور دوسری  مرتبہ  دو  طلاق  دی ہے  تو  چونکہ اس کے گمان کے مطابق  اس کو تین طلاق  مغلظہ ہوچکی ہیں اس لئے اب  شوہر کو اپنے اوپر  قدرت  دیناجائز  نہیں ہے ،

اس کے ذمہ لازم ہے کہ کسی طرح  شوہر سے جان  چھڑا لے اور  دوسری جگہ  شادی کرکے  باعزت زندگی  گذارے ۔

حوالہ جات
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ} [البقرة: 230]
الدر المنثور في التفسير بالمأثور (1/ 676)
أخرج ابْن جرير وَابْن الْمُنْذر وَابْن أبي حَاتِم وَالْبَيْهَقِيّ عَن ابْن عَبَّاس فِي قَوْله {فَإِن طَلقهَا فَلَا تحل لَهُ من بعد} يَقُول: فَإِن طَلقهَا ثَلَاثًا فَلَا تحل لَهُ حَتَّى تنْكح غَيره
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 251)
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب، كما أنه ليس له قتلها إذا حرمت عليه وكلما هرب ردته بالسحر. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ.
وقال الليث حدثني نافع قال كان ابن عمر إذا سئل عمن طلق ثلاثا قال لو طلقت مرة أو مرتين فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمرني بهذا فإن طلقتها ثلاثا حرمت حتى تنكح زوجا غيرك
ٰجب حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہ سے  ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا  جاتا  کہ  جس نے اپنی بیوی  کو  تین طلاقین دیں   ہوں   تو فرماتے  کہ کاش    وہ ایک یا دوطلاقیں    دیتا  ،اس لئے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایسا کرنے کاحکم   دیاتھا  ، ، لہذا اگر اس نے تین   طلاقیں دیں   تو   اس  کی بیوی  اس پر حرام ہوجائے گی  ، یہاں تک وہ اس کے   علاوہ  کسی سے  نکاح  کرلے۔         
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 420)
في الخلاصة عن الصدر الشهيد بلفظ: وفيه دليل على أنها لو ادعت الطلقات الثلاث وأنكر الزوج حل لها أن تزوج نفسها منه. اهـ. وعلله في النهر بأن الطلاق في حقها مما يخفى لاستقلال الرجل به فصح رجوعها اهـ أي صح في الحكم، أما في الديانة لو كانت عالمة بالطلاق فلا يحل، وبما قررناه علمت أن ما قدمه الشارح منقول لا بحث منه فافهم.        

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

دارالافتاء جامعة الرشیدکراچی

یکم جمادی  الاولی ١۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب