021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پلاٹوں کےکاروبارمیں انویسٹمنٹ پرمنافع کاحکم
78467خرید و فروخت کے احکامزمین،باغات،کھیتی اور پھلوں کے احکام و مسائل

سوال

حضرت!میراسوال یہ ہےکہ میراایک جاننےوالاجو کہ ایک پراپرٹی ڈیلرہے،اس نےمجھےایک ہاوسنگ سوسائٹی سے ۵ مرلےکے۴۰ پلاٹ دولاکھ فی پلاٹ کےحساب سےخریدکردئیے،اوپن مارکیٹ میں ایک پلاٹ کی قیمت تین لاکھ تھی،لیکن ڈیلرزکویہ پلاٹ سستاملتاہے،کیونکہ وہ زیادہ پلاٹ خریدتے ہیں اورسوسائٹی میں پیسےانویسٹ کرتے ہیں،اس نےمجھےکہا کہ یہ پلاٹ اوپن مارکیٹ میں چارسےپانچ مہینوں میں تین لاکھ فی پلاٹ بک جائینگےاورمجھ سے ۵۰۰۰۰ ہزار فی پلاٹ ایڈوانس بطورمزدوری لئےاوراوپن مارکیٹ میں ۱۷پلاٹ تین لاکھ فی پلاٹ کےحساب سےبیچ دئیےاورباقی پلاٹ سوسائٹی مالکان نےسات مہینےبعداس سےخودتین لاکھ فی پلاٹ کےحساب سےخریدلئے،کیونکہ شایدپلاٹ کی قیمت بہترہورہی تھی-سوال یہ ہےکہ کیایہ ٹھیک ہے؟جواب سےمطلع فرمائیں۔ جزاک اللہ خیرا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ پلاٹ کی فائل کی  خریدوفروخت کے بارے میں درج ذیل تفصیل ہے:

(۱)اگر پلاٹ کاسائز مقرر ہو،لیکن متعلقہ سوسائٹی کا کل رقبہ معلوم ومتعین نہ ہوتو ایسی صورت میں اس طرح فائل کی خرید وفروخت کا معاملہ کسی صورت جائز نہیں۔

(۲)اگر پلاٹ کا سائز اور متعلقہ سوسائٹی کا کل رقبہ دونوں معلوم و متعین ہوں تو ایسی صورت میں اس کی اصل مالک سے خریداری کا معاملہ درست ہوگا، لیکن پلاٹ کی حدود اربعہ  متعین کئے بغیرایسی  فائل کی آگےنفع کےساتھ خریدوفروخت جائز نہیں ہے، البتہ بوقت ضرورت اصل قیمت(قیمت خرید) پر فائل کا تبادلہ ہوسکتا ہے۔

(۳) قرعہ اندازی کے بعد پلاٹ متعین ہوجانے کے بعد ایسی فائل کو  نفع کے ساتھ بھی آگے فروخت کیا جاسکتا ہے۔

اب آپ کے خریدے ہوئے ان پلاٹوں کے حکم میں یہ تفصیل ہے کہ اگران پلاٹوں کاسائزاورحدود کےساتھ ان کامحل وقوع بھی خارج میں متعین کردیاگیاہواوراس کےبعد آگےیا بلڈرکو بیچےہوں تواس طرح نفع کے ساتھ آگے فروخت کرناجائز ہے اور اس پر ڈیلر کو کمیشن دینا  لینابھی جائز ہے،البتہ اصل سوسائٹی مالکان کو زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کے لیےیہ بھی ضروری ہے کہ پہلے معاملہ میں قیمت کی ادائیگی ہوچکی ہو اور پہلے معاملہ میں زیادہ قیمت پر واپسی کی شرط بھی نہ لگی ہو۔

لیکن اگر اس معاملے میں پلاٹوں کو آگے فروخت کرنے سے پہلے متعین نہیں کیا گیا  تو محض فائلوں کی اس طرح آگے فروخت کا معاملہ نفع پر جائز نہیں ہوا، ایسے میں اس کو ختم کرنا ضروری ہوگا۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 544)
(وقد بيع عشرة أذرع من مائة ذراع من دار) أو حمام وصححاه وإن لم يسم جملتها على الصحيح؛ لأن إزالتها بيدهما (لا) يفسد بيع عشرة (أسهم) من مائة سهم اتفاقا لشيوع السهم لا الذراع، بقي لو تراضيا على تعيين الأذرع في مكان لم أره، وينبغي انقلابه صحيحا لو في المجلس ولو بعده فبيع بالتعاطي نهر
 (قوله: من مائة ذراع) قيد به - وإن كان فاسدا عنده - بين جملة ذرعانها، أو لا لدفع قول الخصاف: إن محل الفساد عنده فيما إذا لم يسم جملتها، فإنه ليس بصحيح، وليصح قوله: لا أسهم فإنه لو لم يبين جملة السهام كان فاسدا وحينئذ يكون الفساد، فيما إذا لم يبين جملة الذرعان مفهوما أولويا أفاده في البحر. (قوله: من دار أو حمام) أشار إلى أنه لا فرق بين ما يحتمل القسمة وما لا يحتملها ح. (قوله: وصححاه إلخ) ذكر في غاية البيان نقلا عن الصدر الشهيد، والإمام العتابي أن قولهما، بجواز البيع إذا كانت الدار مائة ذراع، ويفهم هذا من تعليلها أيضا حيث قالا: لأن عشرة أذرع من مائة ذراع عشر الدار فأشبه عشرة أسهم من مائة سهم، وله أن البيع وقع على قدر معين من الدار لا على شائع؛ لأن الذراع في الأصل اسم لخشبة يذرع بها، واستعير ههنا لما يحله وهو معين لا مشاع؛ لأن المشاع لا يتصور أن يذرع، فإذا أريد به ما يحله، وهو معين لكنه مجهول الموضع بطل العقد درر. قلت: ووجه كون الموضع مجهولا أنه لم يبين أنه من مقدم الدار، أو من مؤخرها، وجوانبها تتفاوت قيمة فكان المعقود عليه مجهولا جهالة مفضية إلى النزاع، فيفسد كبيع بيت من بيوت الدار كذا في الكافي عزمية. (قوله: على الصحيح إلخ) حاصله: أنه إذا سمى جملة الذرعان صح، وإلا فقيل: لا يجوز عندهما للجهالة والصحيح الجواز عندهما؛ لأنها جهالة بيدهما أي المتبايعين إزالتها بأن تقاس كلها فيعلم نسبة العشرة منها فيعلم المبيع فتح. (قوله: لشيوع السهم) ؛ لأن السهم اسم للجزء الشائع، فكان المبيع عشرة أجزاء شائعة من مائة سهم كما في الفتح أي فهو كبيع عشرة قراريط مثلا من أربعة وعشرين، فإنه شائع في كل جزء من أجزاء الدار بخلاف الذراع كما مر. (قوله فبيع بالتعاطي) بناء على أنه لا يلزم في صحته متاركة العقد الأول، وقدمنا الكلام عليه.
مجلة الأحكام العدلية (ص: 52)
للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقارا وإلا فلا۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۷جمادی الاولی۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب