021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زمین کونقدبیچنےکےبعد،واپس مارکیٹ ویلیوپرخریدنا
75789خرید و فروخت کے احکامبیع کی مختلف اقسام ، بیع وفا، بیع عینہ اور بیع استجرار کا بیان

سوال

کیافرماتےہیں علماءکرام اس مسئلےکےبارےمیں کہ ایک آدمی نے105مرلےزمین دوکروڑسترلاکھ (27000000)روپےمیں خریدی،سترلاکھ روپےنقداداکئےاورباقی رقم کی ادائیگی کوایک سال بعدزمین کے انتقال کرانےکےساتھ مشروط کیا،اب تقریبادوسال گزرگئےہیں اورانتقال نہیں ہوا،کیونکہ بائع نےیہ زمین اپنے رشتہ داروں سےخریدی تھی،اورانہوں نےاس وقت انتقال نہیں کرایاتھا،اب وہ انتقال کرانےسےانکارکررہے ہیں، چنانچہ بائع، مشتری سےیہ کہتاہےکہ جب انتقال نہیں ہورہاتواگرآپ یہ زمین دوبارہ مجھےآج کےریٹ کے مطابق بیچنا چاہتےہوتومیں اس کوخریدنےکیلئےتیارہوں ،نیزخریدارنےزمین پر قبضہ کیاتھا،اب سوال یہ ہےکہ کیا خریدارفروخت کنندہ پروہی زمین قیمت خریدسےزیادہ پربیچ سکتاہےیانہیں ؟ نیزاگراسکی کوئی متبادل صورت ہوتواس کی وضاحت فرمائیں ۔شکریہ

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مذکورہ صورت میں عدم جواز کی کوئی ایسی وجہ نہیں پائی جارہی ،جس کی وجہ سےخریداراورفروخت کنندہ کے درمیان دوبارہ ہونےوالےمعاملےکوناجائزقراردیاجائے،لہذا فروخت کنندہ کاخریدارسے آج کےریٹ پرواپس زمین خرید ناجائزہے،البتہ اگرفروخت کنندہ ،خریدارسے کم قیمت پر خریدتاجس کی وجہ سے"شراء ماباع باقل مما باع قبل نقد الثمن الاول " کی صورت پیدا ہوتی یاپہلےسے کسی قسم کی ایسی شرط یامنصوبہ بندی ہوتی بایں طورکہ پہلےوالے معاملے کادوسرےمعاملےسےتعلق ہوتاجس کی وجہ سے"بیع عینہ "کی صورت پیداہوتی،توتب یہ معاملہ ناجائزہوتا۔

حوالہ جات
«البناية شرح الهداية» (8/ 172): م: (قال ومن اشترى جارية بألف درهم حالة أو نسيئة، فقبضها ثم باعها من البائع بخمسمائة قبل أن ينقد الثمن لا يجوز البيع الثاني) ش: وبه قال مالك وأحمد - رحمهم الله -: واعلم أن ‌شراء ‌ما ‌باع ‌بأقل مما باع قبل نقد الثمن لا يجوز عندنا. «حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (5/ 325): (أمر) الأصيل (كفيله ببيع العينة) أي بيع العين بالربح نسيئة ليبيعها المستقرض بأقل ليقضي دينه، اخترعه أكلة الربا، وهو مكروه مذموم شرعا لما فيه من الإعراض عن مبرة الإقراض (ففعل) الكفيل ذلك (فالمبيع للكفيل و) زيادة (الربح عليه) لأنه العاقد و (لا) شيء على (الآمر) «اللباب في الجمع بين السنة والكتاب» (2/ 490): (باب لا يجوز ‌شراء ‌ما ‌باع ‌بأقل مما باع قبل نقد الثمن) الدارقطني: عن يونس بن أبي إسحاق، عن أمه العالية بنت أنفع قالت: " حججت أنا و (أم محبة) فدخلنا على عائشة رضي الله عنها، فقالت لها (أم محبة) : يا أم المؤمنين كانت (لي) جارية، وإني بعتها من زيد بن أرقم بثمانمائة درهم إلى عطائه، (وأنه أراد) بيعها، فابتعتها (منه) بستمائة (درهم) نقدا، فقالت: بئس ما شريت وما اشتريت، فأبلغي زيد بن أرقم أنه قد أبطل جهاده مع رسول الله [صلى الله عليه وسلم] إلا أن يتوب "

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۳رجب المرجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب