021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تہ زمانہ پاتے ئے ‘‘سے طلاق دینے کا حکم’’
53071طلاق کے احکامطلاق دینے اورطلاق واقع ہونے کا بیان

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ 24ذی الحجہ1435ھ کوسسراوراور ان کےداماد میں باہم منہ ماری ہوئی،جھگڑے کے دوران داماد نےغصے میں آکربیوی کومخاطب کرتےہوئے پشتوزبان میں کہاکہ :مریم (فرضی نام)تہ زمانہ پاتے یئے۔تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے۔(اس کامطلب یہ ہےکہ تومجھ سے رہ گئی،چھوٹ گئی )ساتھ میں یہ بھی کہاکہ ان کو(اپنے ماں باپ )کوفون کرتاہوں کہ وہ اس کاسامان بھیج دیں ،سسر نےکہاکہ پھر تین پتھر کے ساتھ مکمل ہی فارغ کردیں اوربات (رشتہ)ختم کردیں تودامادنےکہاکہ ماخبرہ ختمہ کڑہ تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائےیعنی میں نے بات(رشتہ) ختم کردی ۔اب داماد کہتاہے کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی میں طلاق نہیں چاہتاتھا، اورنہ مجھے یہ معلوم ہے کہ اس سے طلاق ہوتی ہے اگرمیری نیت طلاق کی ہوتی تو میں صاف الفا ظ میں طلاق کہتا۔ رمضان سے قبل بھی سسر کے ساتھ جھگڑےکے دوران طلاق کی دھمکی دے چکاتھا،بیوی کومخاطب کرتے ہوئے کہا:اگرتم اپنا گھراجاڑناچاہتی ہوتوابھی کاغذلکھ کردیتاہوں،ان کوکہدوں گاوہ اس کاسامان (جہیز)واپس کردے۔ آپ حضرات سے یہ ہوچھناہے کہ (1)ان خط کشیدہ الفاظ سے طلا ق ہوئی یانہیں؟ اگرنہیں ہوئی توٹھیک(2) اوراگران الفاظ سے طلاق ہوئی ہے توکتنی؟نیز اس صورت میں مزیدکیااحکام لاگوہوں گے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال میں مذکور جملہ ' [تہ زمانہ پاتے ئے]یعنی تو مجھ سے رہ گئی،چھوٹ گئی ۔کئی پشتون علاقوں کے عرف اور محاورے میں طلاق ہی کے مفہوم کے لئے استعمال ہوتاہے۔لہذاگر آپ کے علاقے کے عرف اور محاورے میں بھی یہ جملہ طلاق ہی کے لئے استعمال ہوتا ہو اور اس جملے والی کیفیت میں اور کوئی مطلب نہ سمجھا جاتاہو تو ایسی صورت میں اس سےتین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور اگر آپ کے علاقے کاعرف ایسا نہ ہو بلکہ طلاق کے علاوہ دوسرے یعنی لغوی مفہوم کیلئے بھی بولاجاتاہو تو ایسی صورت میں بھی چونکہ نیت طلق کے واضح قرائن موجود ہیں لہذا صرف ایک طلاق بائن ہی واقع ہوئی ہے۔ شوہر کا یہ کہنا کہ میں نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے نہیں کہے، درست نہیں اس لئے کہ سوال کی وضاحت کے مطابق شوہر کا اس جملہ کو لڑائی ،جھگڑے کے دوران کہنا اورتین مرتبہ دھرانا اور غصہ کی حالت میں بیوی کو مخاطب کر کے کہنا اور سسر کے جواب میں بات [رشتہ] ختم کر دینے کا اقرار کرنا یہ سب واضح قرائن اور ثبوت ہیں کہ اس کی نیت طلاق ہی کی تھی۔ لہذا تین طلاق واقع ہونے کی صورت میں ثوبیہ اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو چکی ہےالا یہ کہ ثوبیہ کا کہیں اور [دوسرے شوہرسے] اس کی رضامندی سے باقاعدہ شرعی نکاح ہوجائے اور دوسرے شوہر سے صحبت ہونے کے بعد وہ اسے اتفاقا طلاق دے دے تو یہ عدت کے بعد دوبارہ اپنے سابقہ شوہر سے نکاح کر سکے گی۔دوسری صورت یعنی صرف ایک طلاق بائن واقع ہونے کی صورت میں شوہر صرف نیا نکاح کر کے ہی اسے دوبارہ رکھ سکتاہے، جس میں نئے مہر مقرر کرنے کے ساتھ بیوی کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ نیز اس کے بعد شوہر کو آئندہ کے لئے صرف دو طلاق دینے کا ہی حق ہوگا، یعنی آئندہ دو طلاق دینے سے ہی اس کی مطلقہ اس پر ہمیشہ کے لئےحرام ہوجائےگی۔

حوالہ جات
.[البحر الرائق ج۹ص۳۵۰) وَفِي الْمِعْرَاجِ ، وَالْأَصْلُ الَّذِي عَلَيْهِ الْفَتْوَى فِي الطَّلَاقِ بِالْفَارِسِيَّةِ أَنَّهُ إنْ كَانَ فِيهِ لَفْظٌ لَا يُسْتَعْمَلُ إلَّا فِي الطَّلَاقِ فَذَلِكَ اللَّفْظُ صَرِيحٌ يَقَعُ بِلَا نِيَّةٍ إذَا أُضِيفَ إلَى الْمَرْأَةِ مِثْلُ زن رها كردم فِي عُرْفِ أَهْلِ خُرَاسَانَ ، وَالْعِرَاقِ بهيم لِأَنَّ الصَّرِيحَ لَا يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ اللُّغَاتِ وَمَا كَانَ بِالْفَارِسِيَّةِ يُسْتَعْمَلُ فِي الطَّلَاقِ وَغَيْرِهِ فَهُوَ مِنْ كِنَايَاتِ الْفَارِسِيَّةِ فَحُكْمُهُ حُكْمُ كِنَايَاتِ الْعَرَبِيَّةِ فِي جَمِيعِ الْأَحْكَامِ ا هـ

نواب الدین

دارالافتاء جامعۃ التشید کراچی

01/02/1436

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب