021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اولادمیں سےکسی کواپنی بعض جائیدادہدیہ کرنا
76070ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

والد:محمداحمدمیر،والدہ:زاہدہ بیگم،بیٹے:رضوان،عرفان،کامران،ذیشان،سلمان۔بیٹی:سمیرا

سوال نمبر1جائیداد:دکان نمبر1:1 کروڑ65لاکھ۔دکان نمبر85:2لاکھ۔دکان نمبر40:3لاکھ۔دکان نمبر:4 20 لاکھ روپےکی ہے۔جناب والدمحترم نےچندماہ پہلےفیصلہ کیاکہ دکان نمبر:1کامران اورسلمان کو70/30فیصد ملے گی(یعنی کامران کوسترفیصدملےگی اورسلمان کوتیس فیصدملےگی)،اوردکان نمبر2:والدصاحب اپنے پاس رکھیں گے،اوردکان نمبر:3اور دکان نمبر:4تینوں بیٹےرضوان،عرفان،ذیشان،اوربیٹی سمیرا،اوربیوی میں، میرےمرنے کےبعدشرعی طورپرتقسیم ہوجائےگی۔یہ فیصلہ ناپسندہونےکےباوجودہم نےوالدکےاحترام کی وجہ سےقبول کرلیا تھا۔

سوال نمبر2:اس فیصلےپرعمل کرتےہوئےوالدمحترم نےکامران کودکان نمبر1کی Power of attorney دےدی۔اس دوران جودکان نمبر2 والدنےرکھنی تھی وہ 85لاکھ کی ہوگئی اوردکان نمبر3،40لاکھ سےایک کروڑبتیس لاکھ کی ہوگئی اوروالدصاحب نےفیصلہ تبدیل کرتےہوئےدکان نمبر3 ایک کروڑ32لاکھ کی فروخت کردی۔اوراب والدصاحب کاکہناہےکہ یہ پیسےمیں تمہاری والدہ کودونگا،اورباقی جوپراپرٹی ہےمیں تقسیم نہیں کرونگا، اورمیرےبعد شرعی  طورپرتمام کےتمام ورثہ میں تقسیم ہوجائےگی۔

سوال نمبر3:یہ تمام فیصلےوراثت کی تقسیم کےحساب سےہوئےتھےاوروالدصاحب کاکہنایہ ہےکہ میں نےجوفیصلہ کیاتھاوہ میں کالعدم قراردےرہاہوں اورجودکان نمبر1میں نےکامران کودےدی ہے،اورجوایک کروڑبتیس لاکھ روپےہیں  میں والدہ کودےرہاہوں وہ میری طرف سےتحفہ ہے۔

محترم جناب شرعی طورپراس طرح کرنااورتحفہ دیناجائزہےیانہیں؟

وضاحت ازمستفتی:والدصاحب نے دکان نمبر1کامران اورسلمان کوہبہ کرنےمیں اس لئےترجیح دےرہےہیں کیونکہ وہ کاروبارمیں باقی اولادسےکمزور ہیں،  اوردکان نمبرتین بیچ کراس کےپیسے ایک کروڑبتیس لاکھ روپےوالدہ کودےدیے،اورباقی جائیدادکےبارےمیں کہاکہ وہ میرےمرنےکےبعد شرعی حصص کےمطابق تقسیم ہوگی۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگرکوئی والد زندگی میں اپنی جائیداد،اولادمیں تقسیم کرے،تویہ والدکی طرف سےاولادکو"ہبہ " (Gift) قرار دیا جاتاہے،اور ایسی صورت میں دیانۃ اورشرعاضروری ہےکہ والداپنی جائیدادمیں بیٹوں اوربیٹیوں کےدرمیان برابر تقسیم کرے،ہاں اگربیٹیوں کی بنسبت بیٹوں کودگنادیناچاہےتواس میں کوئی حرج نہیں،لیکن سب سےبہتر طریقہ یہ ہےکہ وراثت کےحساب سے ہرایک کا جوحصہ بنےاس کےمطابق تقسیم کیاجائے۔یادرہےاس آخری صورت میں بھی تقسیم تووراثت کےحساب سے ہوگی لیکن وہ  ہبہ ہی ہوگی   ۔

صورت مسئولہ میں جب آپ کےوالدصاحب نےایک مرتبہ اپنی جائیدادبطورہبہ تقسیم کردی تھی بایں طور کہ"دکان نمبر1 کامران اورسلمان کی ہےاوردکان نمبر2اپنےپاس رکھنےکاکہااوردکان نمبر3اور4،باقی اولاداورایک بیوی میں تقسیم کرنےکاکہا"اورساتھ ہی اس فیصلےکےمطابق ہرایک کوتخلیہ کرکےدکانوں پرقبضہ بھی کرادیاتھاتو پھرآپ کےوالدصاحب کےلئےاس طرح مکمل ہبہ کرکےرجوع کرناجائز نہیں،کیونکہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےہبہ سےرجوع کرنےوالے کی سخت مذمت کی ہے،نیزذی رحم محرم کوہبہ کرنےکےبعدرجوع درست اورنافذ بھی نہیں ہوتا۔لیکن اگرآپ کےوالدصاحب نےصرف اس طرح تقسیم کرکےہبہ کرنےکاصرف  کہاتھاعملاہبہ کیا نہیں تھایایہ کہ ہبہ توکیاتھالیکن اب تک تخلیہ کرکےقبضہ نہیں کرایاتھاتوایسی صورت میں چونکہ ہبہ تام نہیں ہواتھا، اس لیے ان کو اپنےفیصلےسے رجوع کرنےکااختیارتھا،لہذاوہ رجوع کرسکتےتھے۔

پھر اگرآپ کےوالدصاحب کوئی خاص وجہ مثلااولادمیں کسی کو غریب  دیکھ کریاخدمت کرنےکی وجہ سےکسی کو ہبہ یاعطیہ کرناچاہ رہےہیں تووہ ان کوہبہ اورعطیہ کرسکتےہیں، بشرطیکہ باقی اولادکومحروم کرنےکی نیت نہ ہو۔لہذااس  طرح ترجیحی بنیادپراگرآپ کےوالدصاحب کہتےہیں کہ سابق ہبہ میں سے صرف دکان نمبر1کاہبہ کامران اورسلمان کےحق میں برقراررکھناچاہتاہوں لہذادکان نمبر1میری طرف سےان دونوں بیٹوں کوہبہ(Gift)ہےتواس طرح ہبہ کرنےکے شرعاوہ مجازہیں،لہذاہبہ کرنے اورقبضہ دینےکےبعدکامران اورسلمان دکان نمبر1کے مالک ہوں گے، چنانچہ آپ کےوالدصاحب کےبعد یہ دکان وراثت میں تقسیم نہیں ہوگی،باقی اس  دکان کےعلاوہ آپ کےوالدکی تمام اورہرطرح کی جائیداد،ورثاء بشمول کامرا ن اورسلمان میں تقسیم ہوگی ۔

یہ بات ذہن میں رہےکہ اگرآپ کےوالدنےدکان نمبر1ہبہ نہیں کی ،بلکہ Power of Attorney (مختارنامہ )دیاہےتوپھراس صورت میں گویاآپ کےوالد(پرنسپل)سلمان اور کامران( اٹارنی )کودکان کامالک نہیں بنایا،بلکہ ان کو صرف اپنانائب بناکرتصرفات کرنےکااختیاردیاہے،لہذااس صورت میں چونکہ وہ دکان آپ کےوالد صاحب کی ملکیت سےنہیں نکلی بلکہ وہ خودہی مالک ہیں،اس لئےاس صورت میں یہ دکان نمبر1 بھی دیگرترکہ کے ساتھ وراثت میں تقسیم ہوگی۔

حوالہ جات
«الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية» (4/ 374):
ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى ‌لا ‌يثبت ‌الملك ‌للموهوب له قبل القبض
«الهداية في شرح بداية المبتدي» (3/ 222):
الهبة ‌عقد ‌مشروع لقوله عليه الصلاة والسلام: "تهادوا تحابوا" وعلى ذلك انعقد الإجماع "وتصح بالإيجاب والقبول والقبض" أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد، والعقد ينعقد بالإيجاب، والقبول، والقبض لا بد منه لثبوت الملك.
«صحيح البخاري» (2/ 913 ت البغا):
‌باب: ‌الهبة ‌للولد، وإذا أعطى بعض ولده شيئا لم يجز، حتى يعدل بينهم ويعطي الآخرين مثله، ولا يشهد عليه.وقال النبي صلى الله عليه وسلم: (اعدلوا بين أولادكم في العطية).
«شرح معاني الآثار» (4/ 86):
عن الشعبي، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: أعطاني أبي عطية فقالت أمي عمرة بنت رواحة لا أرضى حتى تشهد من الأشهاد رسول الله صلى الله عليه وسلم. فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني قد أعطيت ابني من عمرة عطية وإني أشهدك. ‌قال: «‌أكل ‌ولدك ‌أعطيت ‌مثل ‌هذا؟» قال لا، قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم» فليس في هذا الحديث أن النبي صلى الله عليه وسلم أمره برد الشيء وإنما فيه الأمر بالتسوية
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (5/ 704):
‌فلو ‌وهب ‌لذي ‌رحم ‌محرم ‌منه) نسبا (ولو ذميا أو مستأمنا لا يرجع)
«الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار» (ص562):
وفي الخانية: ‌لا ‌بأس ‌بتفضيل ‌بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۱۴رجب المرجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب