021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
شرکت مضاربت میں متعین نفع دینے کاحکم
80558مضاربت کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

جناب   عرض یہ  کرنا ہے  کہ میرے دوست کا  موبائل  شاپ ہے  ، اس نے مجھے کہا   کہ آپ مجھے پانچ لاکھ روپے دیدیں  اسے میں   اس کام میں خرچ کرونگا   آپ  کو  میں ہرماہ   بیس ہزار  روپےمنافع دونگا  ، اور  کہا  کہ یہ پانچ لاکھ  ایک سال سے  پہلے واپس نہیں مانگو  گے ۔سوال  یہ ہے کہ میرا اسا طرح لین دین کرنا  ٹھیک ہے ،دوسری بات   یہ ہے کہ  اگر میں خود   پیسے مقرر کروں  کہ مثلا    25000 ہزار  مقررکروں اور وہ بندہ    اس پر راضی ہوجائے   تو کیاحکم ہے ۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

سوال  میں ذکر کردہ  معاملہ شرکت مع  مضاربت کی ہے ،اور  مضاربت کے جواز   کی بنیادی  شرائط یہ ہیں 1۔  کہ  رقم مضارب کے حوالے  کردی جائے  2  ۔رب المال ﴿سرمایہ دینےوالے﴾ خود کاروبار کی عملی سرگرمیوں میں  شریک ہونے کی شرط  نہ لگائے3۔ حاصل  ہونے والے  نفع میں دونوں  کی  شرکت   فیصدی طریقہ پر ہونفع کی کوئی  خاص مقدار کسی کے لئے  مخصوص نہ ہو 4۔ اگر نقصان  ہوجائےتو دیکھا جائے  اس سے پہلے اس تجار  ت میں اگرکوئی  نفع  حاصل ہوا  ہوتو  نقصان کی تلافی  اس سے کی جائے گی، اگر  ابھی نفع نہیں ہوا یا نفع سے تلافی  نہیں  ہو پارہی    ہےتو  نقصان   رب المال یعنی  سرمایہ  فراہم  والے کے ذمہ بقدر اس کے  سرمایہ  کے  ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں  چونکہ  نفع  کی  خاص  مقدارایک  کے  متعین  ہے ، جس سے معاملہ  قرض اور اس پر  سود  دینے کے حکم میں داخل ہوکر ناجائز اور  حرام  ہوگا اس سے  اجتناب لازم ہے ،

البتہ جائز   صورت یہ ہوسکتی  ہے کہ ہرماہ   20ہزار  متعین کرنے کی بجائے اس کاروبار سے  حاصل ہونے  والے  منافع  کو فیصدی  اعتبارسے  آپس  میں تقسیم کرنے کی  شرط  پر  معاملہ  کیاجائے  نیز  نقصان ہونے  کی صورت میں  بقدر سرمایہ نقصان  بھی برداشت کرنا  ہوگا ۔اگر کوئی اور ناجائز بات  نہ ہو تو  ان دونوں شرطوں  سے معاملہ  جائز ہوجائے گا۔

حوالہ جات
الهداية في شرح بداية المبتدي (3/ 200)
قال: "المضاربة عقد على الشركة بمال من أحد الجانبين" ومراده الشركة في الربح وهو يستحق بالمال من أحد الجانبين "والعمل من الجانب الآخر" ولا مضاربة بدونها؛ ألا ترى أن الربح لو شرط كله لرب المال كان بضاعة، ولو شرط جميعه للمضارب كان قرضا.الی قولہ ۰۰۰قال: "ولا بد أن يكون المال مسلما إلى المضارب ولا يد لرب المال فيه" لأن المال أمانة في يده فلا بد من التسليم إليه، وهذا بخلاف الشركة لأن المال في المضاربة من أحد الجانبين والعمل من الجانب الآخر، فلا بد من أن يخلص المال للعامل ليتمكن من التصرف فيه.
الی قولہ ۰۰۰قال: "ومن شرطها أن يكون الربح بينهما مشاعا لا يستحق أحدهما دراهم مسماة" من الربح لأن شرط ذلك يقطع الشركة بينهما ولا بد منها كما في عقد الشركة.            

احسان اللہ شائق عفا اللہ عنہ    

 دارالافتاء جامعة الرشید     کراچی

۲ ذی  الحجہ   ١۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

احسان اللہ شائق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب