021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
روزے کے کفارہ میں روزے کی طاقت ہوپھربھی روزہ نہ رکھنا۔
55736روزے کا بیاننذر،قضاء اور کفارے کے روزوں کا بیان

سوال

: کیافرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگررمضان شریف میں کسی مسلمان سے دوران روزہ کوئی ایسافعل سرزد ہواکہ جس کی وجہ سے فقہائے کرام کے نزدیک اس پرکفارہ لازم ہوتاہوتوکیاایسی حالت میں کفارہ کی ادائیگی میں قرآن پاک کی ترتیب جودربار وارد ہوئی ہے کی رعایت رکھناواجب ہے کہ نہیں ؟ ایک عالم صاحب فرماتے ہیں کہ اس کفارہ کی ترتیب میں جودومہینوں کے روزے ہیں توچونکہ آج کل لوگوں کے قوی کمزور اورمضمحل ہوچکے ہیں ،نیزدین سے غفلت اورلاپرواہی بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کودومہینوں مسلسل روزوں کے کہنے کے باوجود بھی وہ روزے رکھنے کے لئے تیارنہیں ہوتے ہیں ،لہذآج کل مالی کفارہ ہی پراکتفاء کرناچاہئے ،اوردلیل کے طورپریہ بھی کہتاہے کہ اگردومہینے لگاتار روزے آج کل بطورکفارہ کے لوگ رکھ ستکے توپھررمضان جوکہ ایک مہینہ ہے تواس کے باوجود برداشت نہ کرکے جماع کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں جس سے پتہ چلتاہے کہ موجودہ حالات میں مالی کفارہ ہی اداکیاجائے گا،اب پوچھنایہ ہے کہ عوام میں سے کسی کے بارے میں ظن غالب ہوکہ دین سے لاابالی ہونے کی وجہ سے اگران کوکفارہ میں روزوں کاکہابھی جائے گاتوپھربھی روزے رکھنے کے لئے تیارنہ ہوگا،توکیاایسی حالت میں ایک فریضہ کوچھوڑنے سے بچانے کے لئے اس کومالی کفارے کافتوی دیناجائزہے ؟جبکہ اس پرکوئی ایسی بیماری اورضعف بھی نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ روزہ رکھنے پرقادرنہ ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب تک ساٹھ روزے رکھنے کی طاقت ہو،کوئی عذربیماری وغیرہ نہ ہوتوروزے رکھناضروری ہے ،کھاناکھلانے سے کفارہ ادا نہ ہوگا،یہ مسئلہ چونکہ منصوص ہے اورکسی کااس میں اختلاف نہیں ،اس ترتیب پراجماع ہے ،اس لئے کسی مفتی کاایسے شخص کوجوروزے رکھنے پرقادر ہو،مالی کفارہ اداء کرنے کافتوی دینادرست نہیں ،دین سے لاپروائی کوشرعی عذر نہین جس کی بناء پرایک حکم شرعی میں تبدیلی کی جائے ۔
حوالہ جات
"قال اللہ تعالی فی سورۃ المجادلۃ :آیت 4: وَالَّذِينَ يُظَاهِرُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (3) فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاسَّا فَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَإِطْعَامُ سِتِّينَ مِسْكِينًا ذَلِكَ لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ "سنن الترمذي' 3 / 102: حدثنا نصر بن علي الجهضمي و أبو عمار ( والمعني واحد واللفظ لفظ أبي عمار ) قالا أخبرنا سفيان بن عيينة عن الزهري عن حميد بن عبد الرحمن عن أبي هريرة قال أتاه رجل فقال يا رسول الله ! هلكت قال وما أهلكك ؟ قال وقعت على امرأتي في رمضان قال هل تستطيع أن تعتق رقبة ؟ قال: لا، قال: فهل تستطيع أن تصوم شهرين متتابعين ؟ قال: لا، قال: فهل تستطيع أن تطعم ستين مسكين ؟ قال :لا ،قال :اجلس فجلس فأتى النبي صلى الله عليه و سلم بعرق فيه تمر والعرق المكتل الضخم قال تصدق به فقال ما بين لابتيها أحد أفقر منا قال فضحك النبي صلى الله عليه و سلم حتى بدت أنيابه قال فخذه فأطعمه أهلك قال وفي الباب عن ابن عمر و عائشة و عبد الله بن عمرو۔ قال أبو عيسى حديث أبو هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا الحديث عند أهل العلم في من أفطر في رمضان متعمدا من جماع۔ "سنن الدارقطني " 2 / 20: حدثنا أحمد بن محمد بن سعيد وعمر بن الحسن بن علي قالا ثنا المنذر بن محمد بن المنذر حدثني أبي حدثني أبي حدثني محمد بن الحسن بن علي بن الحسين حدثني أبي عن أبيه عن جده عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه : أن رجلا أتى إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقال يا رسول الله هلكت فقال وما أهلكك قال أتيت أهلي في رمضان قال هل تجد رقبة قال لا قال فصم شهرين متتابعين قال لا أطيق الصيام قال فأطعم ستين مسكينا لكل مسكين مدا قال ما أجد فأمر له رسول الله صلى الله عليه و سلم بخمسة عشر صاعا قال أطعمه ستين مسكينا قال والذي بعثك بالحق ما بالمدينة أهل بيت أحوج منا قال فانطلق فكله أنت وعيالك فقد كفر الله عنك۔ "ردالمحتارعلی الدرالمختار" 2 /411 : اکل عمداقضی وکفر کفارۃ المظاھر أی کذافی الترتیب فیعتق أولا فان لم یجد صام شہرین متتابعین فان لم یستطع فاطعام ستین مسکینا۔ " الهندية"5 / 333: وأما في كفارة الظهار ، وكفارة الإفطار في شهر رمضان إذا عجز عن الإعتاق لفقره وعجز عن الصوم لكبره جاز له أن يطعم ستين مسكينا ؛ لأن هذا صار بدلا عن الصيام بالنص كذا في شرح الطحاوي ۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب