021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نفقہ نہ دینے کی وجہ سےبغیرطلاق لیےبیوی کاشوہرالگ رہنا
78182طلاق کے احکاموہ اسباب جن کی وجہ سے نکاح فسخ کروانا جائز ہے

سوال

میری شادی کو19سال ہوچکےہیں،میرےشوہرشروع سےہی گالی گلوچ کرتےتھےاوران کارویہ ہمارےساتھ اچھانہ تھا،میراخرچہ بھی نہیں دیتےاورمجھےہرکسی کےسامنےذلیل کرتےتھے،میرے 5 بچے ہیں،یہ سب باتیں میں اس لیےبرداشت کررہی تھی کہ وہ پہلے گھرکاخرچ اٹھارہےتھے،لیکن جب سے ان کی نوکری ختم ہوئی انہوں نے کہیں نوکری نہ ڈھونڈی ۔ ایک دوست نےخودنوکری آفر کی جو 30000کی تھی،جس سے گھرکاآدھاخرچ چلتااور باقی پیسے میرے والددیتے،لیکن نوبت یہاں تک آگئی کہ ساراخرچ میرےوالداٹھانے لگےاوروہ صرف 15000خرچ دیتےجو بچوں کی فیس کی مدمیں چلاجاتا،اس کےباوجودوہ میرےوالدکوبرابھلا کہتے۔ ایک دن انھوں نے مجھے اتنی باتیں سنائیں کہ لگ رہا تھا کہ دماغ ماؤف ہوگیا ہے،نماز کےلیے کھڑی ہوئی توصرف روناآرہاتھا،وہ کہتے ہیں کہ تمہاری قسمت کی وجہ سےمیرےپاس پیسےنہیں ہیں،اس سب کےبعدجب میں والدکے گھرآئی توانہوں نےمیری حالت دیکھ کرکہا کہ اب تم واپس نہیں جاؤ گی۔ مجھے میرا شوہر طلاق نہیں دےرہا اور میں کورٹ جا کرطلاق بھی نہیں لےسکتی۔کیا اس طرح بغیرطلاق علیحدہ رہنےسےمجھے گناہ ملےگا؟ اگرہاں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسؤلہ میں اگر شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے آپ کےلیے گزر بسر مشکل ہے اور آپ اس مجبوری کی وجہ سے والد کے ساتھ رہ رہی ہیں کہ شوہر آپ کو شرعی حق کے بقدر نفقہ نہیں دے سکتا تو ایسے میں شوہر سے الگ رہنے کی وجہ سے آپ گناہ گار نہیں،لیکن مستقل طور پر اس طرح شوہر سے الگ رہناشرعاناپسندیدہ اورفتنے کا باعث ہے، اس لیے اگر صورت مسؤلہ میں آپ شوہر کی طرف سے ملنے والے نفقہ میں گزارہ نہیں کرسکتی تو اس کا شرعی حل یہ ہے کہ آپ شوہر کے ساتھ پنچائیت کے ذریعہ یہ معاہدہ کرلیں کہ آپ ہر ماں طے شدہ نفقہ میں سے جس قدر کمی ہوگی،وہ مقدار اپنے والد یا کسی اور سے شوہر کی طرف سےقرض لیکر خرچ کرینگی اور اس قرض کی ادائیگی آپ کے شوہر کےذمہ ہوگی۔اگر شوہر اس طرح معاہدہ کےلیےتیار نہ ہواورآپ کےلیے الگ رہتے ہوئےاپنےاوپر فتنے کااندیشہ ہوتو ایسے میں آپ کےلیےبعض ائمہ کےمسلک کے مطابق بذریعہ عدالت اپنا نکاح فسخ کرانے کی بھی گنجائش ہے،لیکن اگرشوہرتنگدست ہےاورکوشش کے باوجود نفقہ پورا نہیں کرپاتا تو آپ کو صبرسےکام لینا چاہئے،ایسے میں نکاح فسخ کرانابہتر نہیں،لیکن اگر وہ کمانے کی کوشش بھی نہیں کرتا اورآپ کوباتیں بھی سناکر تنگ کرتا ہےتو پھرعدالت سے فسخ کی ڈگری لینے میں کوئی حرج نہیں۔

حوالہ جات
الحيلة  الناجزة للحليلة العاجزة:(ص:194):
وأما الجواب عن امرأة المعسر الذي لا يجد ما ينفق عليها ففي المدونة قال لنا مالک: وكلمن لم يقو على نفقة امرأته فرق بينهما ولم يقل لنا مالك حرة ولا أمة، وقال: لأن الرجل إذا كان    معسرا لا يقدر على النفقة ، فليس لها عليه النفقة، إنما لها أن تقيم معه أو يطلّقها۔
حاشية ابن عابدين (5/ 390) ایچ ایم سعید، کراچی: قوله ( حبس بطلبها ) أي بطلبها حبسه إن كانت النفقة مقضيا بها أو متراضى عليها،  قوله (كما لو أبى أن ينفق عليهما ) أي كما يحبس الموسر لو امتنع من الإنفاق على زوجته وولده الفقير الصغير كما في السراج۔
الموسوعة الفقهية الكويتية (5/ 254) :
وإذا عجز الزوج عما وجب عليه من النفقة على التفصيل السابق ، وطلبت الزوجة التفريق بينها وبين زوجها بسبب ذلك ، فعند المالكية والشافعية والحنابلة يفرق بينهما. وذهب الحنفية إلى أنه لا يفرق بينهما بذلك ، بل تستدين عليه ، ويؤمر بالأداء من تجب عليه نفقتها لولا الزوج .
المغني لابن قدامة(9/ 244) دار الفكر ، بيروت:وجملته أن الرجل إذا منع امرأته النفقة لعسرته وعدم ما ينفقه فالمرأة مخيرة بين الصبر عليه وبين فراقه وروي ذلك عن عمر وعلي وأبي هريرة وبه قال سعيد بن المسيب و الحسن وعمر بن عبد العزيز و حماد و مالك و يحيى القطان و عبد الرحمن بن مهدي و الشافعي و إسحاق و أبو عبيد و أبو ثور وذهب عطاء و الزهري و ابن شبرمة و أبو حنيفة وصاحباه إلى أنها لا تملك فراقه بذلك۔
مغني المحتاج (3/ 442) دار الفكر،بيروت:
فصل في حكم الإعسار  بمؤونة الزوجة المانع لها من وجوب تمكينها إذا ( أعسر ) الزوج أو من يقوم مقامه من فرع أو غيره ( بها ) أي نفقة زوجته المستقبلة كتلف ماله ( فإن صبرت ) بها وأنفقت على نفسها من مالها أو مما افترضته ( صارت دينا عليه ) وإن لم يقرضها القاضي كسائر الديون المستقرة  تنبيه :هذا إذا لم تمنع نفسها منه فإن منعت لم تصر دينا عليه قاله الرافعي في الكلام على الإمهال  ( وإلا ) بأن لم تصبر ( فلها الفسخ ) بالطريق الآتي ( على الأظهر)۔
الذخيرة (11/ 21) دار الغرب،بيروت:قاعدة شاع بين الفقهاء أن الشهادة على النفي غير مقبولة وفيه تفصيل مجمع عليه وهو أن النفي المحصور تقبل الشهادة فيه كالشهادة على هذا البيت ليس قبلي فإنه معلوم النفي بالضرورة وكذلك غير المحصور إذا علم بالضرورة أو النظر كالشهادة على نفي الشريك لله تعالى ونفي زوجية الخمسة فهذه ثلاثة أقسام تقبل الشهادة فيها على النفي إجماعاً۔
الحيلة  الناجزة للحليلة العاجزة:(ص:175) :
وأما إن لم يكن له مال فلها التطليق عليه بالإعسار، لكن بعد اثبات ما تقدم وتزيد إثبات العدم واستحقاقها للنفقة وتحلف مع البينة المشاهدة لها أنها لم تقبض منه النفقة هذه المدة ولاأسقطتها عنه۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۹ربیع الثانی۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب