021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین میتوں کے مناسخے کی ایک صورت کاحکم
54513 میراث کے مسائلمناسخہ کے احکام

سوال

ایک شخص عبداللہ مرحوم نے اپنی زندگی میں اپنی جائیدار فروخت کر کے اس کی قیمت تقریبا پینتیس لاکھ اپنے بیٹے محمد کاشف انوار مرحوم کو کاروبار کے لئے دی،اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ انوار الحق یہ رقم کاشف انوار کو بطور مالک ہونے کی دی ہو۔کاشف انوار کاروبار کرتے رہےاورکاروبار میں الحمدللہ منافع بھی ہوا۔اس دوران عبداللہ کا انتقال ہو گیامگر ان کے انتقال کے بعد جو کچھ بھی کاروبار بمع منافع کے تھا،وہ ورثاء میں تقسیم نہیں کیا گیا۔کاشف صاحب بدستور کاروبار کرتے رہےاور مختلف دیگر کاروبار بھی شروع کئے۔عبداللہ مرحوم کے دوسرے بیٹے بہزادانوار بھی اس دوران کاشف انوار کے ساتھ مل کرچھوٹاموٹا کاروبار کرتے رہےاورایک ریسٹورنٹ کی دیکھ بھال کےلئے ان کو مقرر کیا گیا۔بعد ازاں کاشف انوار کا بھی رضائے الہی سے انتقال ہو گیا۔اس کے بعد کاشف صاحب کے برادران لاءچوھدری ندیم صاحب اور نصیر صاحب کو کاروبار کا سرپرست بنایا گیااور بہزادانوارکو کاروبارکی جگہ بٹھایا گیا۔رقم کا حساب کتاب ندیم صاحب اور نصیر صاحب کرتےرہے اوربہزاد انوارکو ماہانہ بیس ہزار روپے جیب خرچ اور گھر میں ماہانہ ایک لاکھ روپےدیتے رہے۔اس دوران بہزاد انوار نے کریڈٹ (ادھار)پر ایک کاروبار شروع کیا،جس میں نقصان ہوا تو اس کی تلافی اسی مشترکہ کاروبار سے کی گئی،نقصان کی رقم تقریبا پچاس لاکھ روپے ہے۔ ابھی تک وراثت تقسیم نہیں ہوئی تھی کہ عبداللہ مرحوم کی اہلیہ کا بھی انتقال ہوگیا۔اب موجودہ صورت حال یہ ہےکہ ندیم صاحب اور نصیر صاحب بہزاد انوار کو کہتے ہیں کہ دادا کی وراثت میں سے جو سات ایکڑ زرعی زمین ہےوہ آپ لے لو اور باقی ہر چیز سے دست بردار ہو جاؤ۔سامان کی تفصیل یہ ہے: 7ایکڑ زرعی زمین،4 عدد رہائشی پلاٹ،4 عدد چلتے کاروبار،2 عدد گاڑیاں اب مندرجہ ذیل سوالات کا شرعی حل تجویز فرمادیں۔ 1۔ کیابہزاد انوار کا عبداللہ مرحوم کی وراثت میں سے کچھ حصہ ہے؟ اگر ہے تو کتنا؟ 2۔ کیا نصیر صاحب اور ندیم صاحب کا یہ مطالبہ کہ آپ سات ایکڑ زمین لے کر دست بردار ہو جاؤشرعی لحاظ سے درست ہے؟ 3۔ عبداللہ کے انتقال کے وقت ان کے دو بیٹے دو بیٹیاں اور ایک بیوی موجود تھی۔عبداللہ مرحوم کی جائیداد میں ان ورثاء کا کتناحصہ بنتا ہے؟ 4۔ کیا کاشف مرحوم اور ان کی والدہ مرحومہ کی جائیداد میں سے بھی بہزاد انوار کا کچھ حصہ بنتا ہے؟ 5۔ اب عبداللہ مرحوم کے ورثاء میں سے ایک بیٹا بہزاد انوار اور دو بیٹیاں موجود ہیں۔کاشف مرحوم کی اہلیہ اور تین بیٹیاں بھی موجود ہیں۔شرعی حیثیت سے ہر ایک کا حصہ تجویز فرمادیں۔ تنقیح: سائل نے مزید وضاحت کے طور پر یہ بھی بتایا کہ والد صاحب مرحوم کے پیسوں سے زق آئل نام کی ڈسٹریبیوشن کمپنی شروع کی گئی، جو کاشف اور بہزاد انوار کے نام رجسٹرڈ ہے۔اس کاروبار کی آمدنی سے کاشف انوار نے دو مزیدکاروبار شروع کیے: (1) امپورئم گارمنٹس شاپ (2) کاک اینڈ بُل فاسٹ فوڈ، کاشف انوار صاحب کےایک بھانجے بھی ان دو کاروبار میں پارٹنر(شریک)ہیں اور بہزاد انوار بھی اس دوران بھائی کے ساتھ کاروبارمیں رہے۔ (3) کاشف انوار صاحب کی وفات کے بعدبہزاد انوار نے مسمری کے نام سے ایک گارمنٹس کی شاپ بنائی ، جس کی ٹوٹل رقم زق آئل سے ادا کی گئی۔چونکہ اب کاروبار کا حساب کتاب چوہدری ندیم اور نصیر کے پاس ہے،اس لئے بہزاد انوارکو اس کاروبار سے آج تک کوئی منافع نہیں ملا۔ مزید سائل نے یہ بھی بتایا ( پہلے اس بارےکچھ اور بتایا گیا تھا)کہ ندیم صاحب اور نصیر صاحب کی کوئی تنخواہ مقرر نہیں ہے،بلکہ کاروبار کی تمام رقم ان کے پاس ہوتی ہے اور وہ اس میں سے کتنی رقم لیتے ہیں، اس کا کوئی علم نہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آپ کے والد صاحب نے چونکہ اپنی جائیداد فروخت کر کے آپ کے بھائی کاشف بہزاد کو کاروبار کے لئے دی تھی اور اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے یہ رقم بطور ملک دی تھی،اس صورت حال میں عام عرف کے تحت یہ کاروباروالد صاحب مرحوم کی زندگی تک والد صاحب کی ملکیت شمارہوگا۔ان کی وفات کے بعد (ترکہ میں شراکت کے اصول کے تحت)اس کاروبار میں سب بہن،بھائی اور والدہ اپنےشرعی حصص کے مطابق شریک تھیں اورچونکہ وراثت میں تمام شرکاء(پارٹنرز)کی شرکت،شرکت ملک ہوتی ہے،جس میں ایک شریک دوسرے کی ملکیت میں بغیر اجازت تصرف(کوئی بھی تجارتی یاغیرتجارتی کام) نہیں کر سکتا،لہذا وراثت تقسیم کیے بغیر کاشف انوار اور بہزاد انوار کا کاروبار کو جاری رکھنا درست نہیں تھا،لیکن اس کے باوجود چونکہ والد صاحب کی وفات کے بعد ان دونوں نے کاروبار کو جاری رکھا اوربقول سائل باقی شرکاء سے نہ تو کوئی شرکت کا معاہدہ کیا گیا اور نہ ہی شرکاءسےکوئی اجازت لی گئی، لہذا کاروبار میں ان دو حضرات نےبلااجازت جو دوسرے ورثاء کا حصہ لگایا ہے اس کاروبارمیں دوسرےورثاءاگرچہ قانونی لحاظ سےشریک نہیں، لیکن چونکہ ان کے حصوں کو استعمال میں لاکر نفع کمایاگیاہے،لہذاموجودہ سامان جو کہ سب اس کاروبار کی آمدنی سے ہی حاصل کیا گیا ہے (بھانجے کا پارٹنرکی حیثیت سے جو حصہ بنتا ہے، اس کے علاوہ)اس پورےمال کوان تمام ورثاء میں ہی ان کے حصص کے حساب سےتقسیم کیا جائےگا۔ نیز اگر باقی شرکاء کی طرف سے ان کے حصص کاروبار میں لگانے کی اجازت ہوتب بھی چونکہ منافع میں ہر شریک کا فیصدی حصہ مقرر نہیں کیا گیا،لہذا یہ شرکت فاسد ہو گی، اس کا حکم بھی یہ ہےکہ ہر شریک اپنے حصہ میراث کے بقدر سرمایہ اور منافع دونوں میں حصہ کا حق دار ہوگا،البتہ بہزاد انوار نے کریڈٹ پہ جو کاروبار کیا تھا، اس میں ہونے والے نقصان کی تلافی مشترکہ کاروبار سے کرنادرست نہیں،بلکہ یہ پیسے بہزاد انوار کے ذمہ ہیں اور اسی کے حصے سے ادا کئے جائیں گے۔اس تمہید کے بعد سوالات کے جوابات ملاحظہ ہوں: (1،3،4) بہزادانواراور انوار الحق مرحوم کی دو بیٹیوں کو عبداللہ مرحوم،کاشف انوار مرحوم اور انوار الحق مرحوم کی اہلیہ مرحومہ تینوں کی وراثت میں سے حصہ ملے گا،جس کی تفصیل اگلے جزء کے تحت ذکر کی گئی ہے۔ (2) نصیر صاحب اور ندیم صاحب کا یہ مطالبہ درست نہیں ہےاور نہ ہی اس کی کوئی اہمیت ہے،کیونکہ وراثت میں جو حصہ جس کا بنتا ہے وہ اس کا مالک ہے، اس سے کوئی یہ حصہ روک نہیں سکتا،البتہ اگروہ خود اور باقی ورثاء اس پر راضی ہوں تو کوئی بھی طریقہ تقسیم کااختیارکرسکتےہیں۔نصیر صاحب اور ندیم صاحب کو اس کاروبار میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا،البتہ چونکہ ان حضرات کو کاروبار کا نگران بنایا گیا تھا، لہذااگریہ نگرانی انہوں نےمفت میں نہیں بلکہ کسی معاوضہ کی امید پر قبول کی ہےتو دیکھا جائےگا کہ جتنا عرصہ ان حضرات نے کام کیا ہے، عام طور پر اتناعرصہ اس نوعیت کا کام کرنے والے کو لوگ کتنی تنخواہ دیتے ہیں؟ عام عرف میں جو تنخواہ رائج ہو اس کے بقدر ان کو پیسے دیے جائیں،نیز اگر یہ حضرات پہلے سے اس معروف تنخواہ کی مقدارسے زیادہ رقم لے چکے ہوں تو ان پر لازم ہے کہ اضافی رقم ورثاء کو واپس کریں۔ (5) اب موجودہ جتنا سامان(ترکہ) ہے ،اس میں جتنے ورثاء زندہ ہیں ہر ایک کا حصہ ذیل میں ملاحظہ ہو: • بہزاد انوار کو کل مال میں سے 38.456 فیصد حصہ ملے گا۔ • انوار الحق مرحوم کی دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو کل مال میں سے 19.227 فیصد حصہ ملے گا۔ • کاشف مرحوم کی اہلیہ کو کل مال میں سے 3.646فیصد حصہ ملے گا۔ • کاشف مرحوم کی تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو کل مال میں سے 6.482فیصد حصہ ملے گا۔
حوالہ جات
قال اللَّه تعالى في القرأن الكريم: {يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ .........وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ...... } [النساء: 12, 11] وفي الشاميه: "مطلب فيما يقع كثيرا في الفلاحين مما صورته شركة مفاوضة [تنبيه] يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية." (ج:4,ص:307, دارالفكر) قال في الفتاوى الهندية: " وإذا مات الرجل ، ولم تقسم تركته حتى مات بعض ورثته ...... بيانه إذا مات وترك بنين وبنات ثم مات أحد البنين أو إحدى البنات ولا وارث له سوى الإخوة والأخوات قسمت التركة بين الباقين على صفة واحدة للذكر مثل حظ الأنثيين فيكتفي بقسمة واحدة بينهم وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول فإنه تقسم تركة الميت الأول ، أولا ليتبين نصيب الثاني ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته فإن كان يستقيم قسمة نصيبه بين ورثته من غير كسر فلا حاجة إلى الضرب." (ج:51,ص:412, المكتبة الشاملة) وفي درر الحكام : "المادة (1089) - (إذا بذر بعض الورثة الحبوب المشتركة في الأراضي الموروثة بإذن الورثة الآخرين أو إذن وصيهم إذا كانوا صغارا فتكون الحاصلات مشتركة بينهم جميعا ولو بذر أحدهم حبوب نفسه فحاصلاتها له." (ج:3,ص:51, دار الجيل)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سمیع اللہ داؤد عباسی صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب