021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مرد کے لمبے بال رکھنے اور انکی چوٹی باندھنے کا حکم
78213جائز و ناجائزامور کا بیانناخن ،مونچھیں اور ،سر کے بال کاٹنے وغیرہ کا بیان

سوال

۱۔کیامردکےلمبےبال رکھناجائزہے؟ ۲۔کیامرداپنےلمبےبالوں کی چوٹی باندھ سکتا ہے؟۳۔نیز کیا غسل اورنمازکےوقت اسے کھولنا لازم ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔ جائز ہے، البتہ سر کے بالوں کے بارے میں اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ  بال تمام سر کے برابر ہونا ضروری ہیں خواہ کاٹے یا مونڈھے۔

بال رکھنے کی جائز صورتیں تین ہیں:

مسنون طریقہ:تمام سر کے بال بطور پٹےبرابر رکھنا سنت ہے، جس کی تین صورتیں ہیں:

۱۔وفرہ یعنی کانوں کی لو تک رکھنا۔

۲۔لمہ یعنی کانوں اور کندھوں کے درمیان تک رکھنا۔

۳۔ جمہ یعنی کندھوں  تک رکھنا۔

مستحب طریقہ:پورے سر کے بال مونڈنا اس کے سنیت میں اختلاف ہے،البتہ صحیح یہ ہے کہ مستحب ہے۔

 مباح طریقہ: پورے سر کے بال برابر کاٹنا اس کی صرف گنجائش ہے۔

ناجائزاور مکروہ تحریمی صورتیں:جہاں سر کے کچھ بال مونڈھے جائیں اور کچھ حصہ کے بال باقی رکھے جائیں یا صرف چھوٹے کئے جائیں یا کچھ بال کم کاٹے جائیں اورکچھ بال زیادہ کاٹے جائیں تو یہ ناجائز ہے۔(احسن الفتاوی: ج۸،ص۷۹،فتاوی رحیمیۃ:ج۱۰،ص۱۱۴)

 اسی طرح ایسے بال رکھنا جوکفار یا فساق کی امتیازی پہچان ہوں، اس میں ممانعت کی وجہ  کفاریابےدین لوگوں کےساتھ مشابہت ہےاوراس میں ہر زمانے کے کفار وفساق کے امتیازی پہچان کا اعتبار ہوگا۔(احسن الفتاوی:ج۸،ص۷۹)

شریعت نے بال لمبے  کرنے کی کوئی متعین تحدید نہیں فرمائی ،البتہ وضع وقطع میں عورتوں سے مشابہت کی ایک کلی واصولی ممانعت فرمائی ہے،لہذااگربال کندھوں سےاس قدر  متجاوز ہوں کہ عورتوں یالڑکیوں کےبالوں کےساتھ مشابہت پیدا ہوجائےیامشابہت توپیدانہ ہو،لیکن اس سےمقصدتکبروتفاخر(بڑائی جتلانا)ہوتو ایسی صورت میں کندھے سے لمبے بال رکھناجائز نہیں ۔

 ۲۔جس حدتک بال بڑھاناناجائزہے،اس صورت میں اگرچوٹی بھی باندھی جائے تو عدم جوازکی قباحت  میں مزید اضافہ ہوگا، ورنہ (حدجواز تک لمبےبال ہوں)تو  چوٹی باندھنا مکروہ تنزیہی ہوگا،اس لیے کہ  عام حالت میں بلا ضرورت بالوں کی ایسی وضع شرفاء وصلحاء کے طریقے کے خلاف ہے۔

۳۔اگر چوٹی باندھ لی ہو توغسل اورنماز کےلیے کھولنا ضروری ہے۔

حوالہ جات
فتح الباري لابن حجر (10/ 360)
وما دل عليه الحديث من كون شعره صلى الله عليه وسلم كان إلى قرب منكبيه كان غالب أحواله وكان ربما طال حتى يصير ذؤابة ويتخذ منه عقائص وضفائر كما أخرج أبو داود والترمذي بسند حسن من حديث أم هانئ قالت قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة وله أربع غدائر وفي لفظ أربع ضفائر وفي رواية بن ماجه أربع غدائر يعني ضفائر والغدائر بالغين المعجمة جمع غديرة بوزن عظيمة والضفائر بوزنه فالغدائر هي الذوائب والضفائر هي العقائص فحاصل الخبر أن شعره طال حتى صار ذوائب فضفره أربع عقائص وهذا محمول على الحال التي يبعد عهده بتعهده شعره فيها وهي حالة الشغل بالسفر ونحوه والله أعلم
تحفة الأحوذي (5/ 390)
قال في إنجاح الحاجة حاشية بن ماجه قوله وله أربع غدائر لعله فعل ذلك لدفع الغبار انتهى،قلت وهو الظاهر لأنه صلى الله عليه وسلم كان في السفر
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 641)
(وعقص شعره) للنهي عن كفه ولو بجمعه أو إدخال أطرافه في أصوله قبل الصلاة؛ أما فيها فيفسد
 (قوله وعقص شعره إلخ) أي ضفره وفتله، والمراد به أن يجعله على هامته ويشده بصمغ، أو أن يلف ذوائبه حول رأسه كما يفعله النساء في بعض الأوقات، أو يجمع الشعر كله من قبل القفا ويشده بخيط أو خرقة كي لا يصيب الأرض إذا سجد؛ وجميع ذلك مكروه، ولما روى الطبراني «أنه - عليه الصلاة والسلام - نهى أن يصلي الرجل ورأسه معقوص» " وأخرج الستة عنه - صلى الله عليه وسلم - «أمرت أن أسجد على سبعة أعضاء، وأن لا أكف شعرا ولا ثوبا» شرح المنية، ونقل في الحلية عن النووي أنها كراهة تنزيه، ثم قال: والأشبه بسياق الأحاديث أنها تحريم إلا إن ثبت على التنزيه إجماع فيتعين القول به

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۱۹ربیع الثانی۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب