021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والدکااپنے سوتیلے بیٹوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا
57027 نکاح کا بیاننکاح کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرے والد جن کی پیدائش 1935 میں ہوئی ،اوران کے بڑے بھائی کی پیدائش 1933 میں ہوئی ،ان کے والد کاانتقال 1935 میں ہوا،1936 میں ان کی والدہ کانکاح ان کے (والد)چچاسے ہوا،میرے والد اورمیرے بڑے چچادونوں کی پرورشن میرے دادانے کی ،(سوتیلے دادانے )میرے سوتیلے داداکی میری دادی سے 3 اولادیں تھیں،دوبیٹے اورایک بیٹی پاکستان بننے کے بعد سب پاکستان منتقل ہوگئے،میرے دوسرے دادانے میرے والد اوربڑے چچاکی پرورش توکی لیکن کبھی اپنی اولادنہ سمجھا،ہمیشہ ظلم وستم کیا،پڑھائی لکھائی نہیں کروائی ،گھرکے نوکروں کی طرح کام لیا، جبکہ اپنی سگی اولادکاپوراپوراخیال رکھا،میرے والد اورچچاکواس امتیازی سلوک کی وجہ نہیں معلوم تھی،میرے دوسرے دادانے انڈیاکی ساری پراپرٹی کاکلیم خوداپنے نام کرالیا،اورمیرے والد اورچچاکی ولدیت بھی تبدیل کرادی ،اپنے نام سے ،انڈیاکی ساری پراپرٹی کاکلیم انہوں نے خرچ کردیا،پھرمیرے والداورچچانے گھرکاخرچ چلایا،لیکن انہوں نے جوایک گھرکراچی میں رہ گیا،اپنے آخری وقت میں اس گھرمیں میرے والد اورچچاکاکوئی حصہ نہ رکھا،جبکہ اس گھر کی تعمیر سے لے کرہرمعاملے میں میرے والد برابرشریک تھے،اوراس گھرپرانہوں نے (دادا)نے صرف اپنے سگے بچوں کورہنے کاحق دیااور کہاکہ ان کے بچوں کے بعدیہ گھر دارالعلوم کووقف کردیاجائے ،اس بات کاپتہ میرے والد کواب چلا،کیونکہ اس گھرکے تمام کاغذات میرے چھوٹے چچاکے پاس تھے،اورکبھی اس گھرکے بٹوارے کی بات کسی چچانے نہیں کی تھی،اس لئے یہ بات منظرعام پرنہیں آئی ،مگراب چونکہ ہمیں اس گھرکی ضرورت ہے توہم نے اس گھر کے باقی حصے خریدنے کی بات کی تواس پرہمارے چھوٹے چچانے یہ بات بتائی ،اب ہم یہ جانناچاہتے ہیں کہ کیایہ داداکاجائزعمل تھاکہ انہوں نے میرے والد کاانڈیاکی جائیدادکاکلیم بھی خوداپنے نام کرالیا،باقی کراچی کی جائیدادمیں کوئی حصہ نہیں رکھا،صرف اپنے سگے بچوں کورہنے کی اجازت دی،جبکہ میرے والدنے اس گھرمیں موجود دکان چلاکر اس کی آمدنی سے گھرکے اوپرکے حصے کی تعمیر کروائی ،تواس گھرکوکس صورت وقف نہیں ہوناچاہئے،میرےوالد اورچچاکی رضامندی کے بغیر کیاہم اس وصیت کوتبدیل کراسکتے ہیں ؟ کیاداداکاپنے بھائی کے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک جائزتھا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

بشرط صحت سوال والد کاسوتیلے بیٹوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرناجائزنہیں ،شرعابھی اوراخلاقابھی، والد کو سگی اولاد سے زیادہ سوتیلی اولادکاخیال کرناچاہئے،کیونکہ یتیم کی کفالت کرنااوران کی ضروریات کاخیال رکھناباعث ثواب بھی ہے ،اوریتیم کا مال ناحق کھانے پرقرآن وحدیث میں بہت وعیدیں بھی آئی ہیں۔ سورۃ النساء آیت نمبر 10 میں اللہ تعالی فرماتے ہیں :جولوگ یتیموں کومال ناحق کھاتے ہیں وہ لوگ حقیقت میں اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھررہے ہیں اورعنقریب آگ میں داخل ہوجائیں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :کہ کچھ لوگ قیامت کے دن اس طرح اٹھائےجائیں گے کہ ان کے منہ سے آگ بھڑگ رہی ہوگی ،صحابہ کرام نے عرض کیا:یارسول اللہ یہ کون لوگ ہوں گے ؟آپ نے فرمایا:کیاتم قرآن میں نہیں پڑھا:ان اللذین یأکلون أموال الیتامی ظلماانمایأکلون فی بطونہم نارا۔(ابن کثیر1/456 )سورۃ النساء کی اوپروالی آیت کاحوالہ دیا:جولوگ یتیموں کومال ناحق کھاتے ہیں وہ لوگ حقیقت میں اپنے پیٹوں میں آگ ہی بھررہے ہیں اورعنقریب آگ میں داخل ہوجائیں گے ۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں تم کوخاص طورپردوضعیفوں کے مال سے بچنے کی تنبیہ کرتاہوں ،ایک عورت اوردوسرے یتیم ۔ یتیم کامال جیسے ناجائزطورپرکھاناحرام ہے، اسی طرح اس کاکوئی بھی غیرشرعی استعمال حرام ،اورآگ میں جانے کاسبب ہے ۔ مذکورہ تفصیل کی بناء پروالد(آپ کے دادا) پرلازم تھا کہ جس طرح وہ اپنے سگی اولاد کی دیکھ بھال کرتاتھا، اسی طرح اپنے بھائی کی یتیم اولادکی بھی اچھی طرح کفالت کرتااورآخرت میں ثواب پاتا،لیکن والد ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرکے نہ صرف یہ کہ ثوا ب سے محروم رہا،بلکہ ان کاناجائزمال اورجائیدادپرقبضہ کرکے مزید گناہ گاربھی ہوا،اب ورثہ(آپ کے سوتیلے چچاوغیرہ ) پرلازم ہے کہ اگروالد کاترکہ ان کے پاس ہے تواس میں سے والدکی قبضہ کردہ جائیداد(جوکہ انڈیامیں تھی)کی اس وقت کی قیمت اصل مالک یعنی سوتیلے بیٹوں کے حوالے کریں،اسی طرح کراچی میں موجودگھرمیں سوتیلے بھائیوں کاجتناخرچہ ہواہے ،وہ بھی ان کودیں
حوالہ جات
۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا (النساء10) } "تفسير ابن كثير"2 / 223: وقال السدي: يبعث آكل مال اليتيم يوم القيامة ولهب النار يخرج من فِيهِ ومن مسامعه وأنفه وعينيه، يعرفه من رآه بأكل مال اليتيم. وقال أبو بكر ابن مردويه: حدثنا إسحاق بن إبراهيم بن زيد، حدثنا أحمد بن عمرو، حدثنا عقبة بن مكرم، حدثنا يونس بن بُكَير، حدثنا زياد بن المنذر، عن نافع بن الحارث عن أبي برزة؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "يبعث يوم القيامة القوم من قبورهم تَأَجَّج أفواههم نارا" قيل: يا رسول الله، من هم؟ قال: "ألم تر أن الله قال: { إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا [إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا] الآية. رواه ابن أبي حاتم، عن أبي زُرْعة، عن عُقْبة بن مكرم وأخرجه أبو حاتم بن حبّان في صحيحه، عن أحمد بن علي بن المثنى، عن عقبة بن مكرم . وقال ابن مَردويه: حدثنا عبد الله بن جعفر، أحمد بن عصام حدثنا أبو عامر العبدي، حدثنا عبد الله بن جعفر الزهري، عن عثمان بن محمد، عن المقبرِيّ، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أُحَرِّجُ مال الضَّعِيفيْن: المرأة واليتيم" أي أوصيكم باجتناب مالهما. "المبسوط " 21 / 4: رجل مات وترك ابنا ، وفي يده عبد فادعى رجل أنه استودع العبد أباه فإن الابن يستحلف له على علمه لأنه قام مقام المورث فجحوده الوديعة كجحود المورث ، ولو أقر به أمر بالتسليم إليه ، فإذا أنكر يستحلف عليه غير أن هذا استحلاف على فعل الغير فيكون على العلم۔۔ وكذلك ما ادعى على الأب من غصب أو عارية فلا ضمان للثاني على الابن لما بينا ، وتأويل هذا إذا لم يكن في يد الابن شيء من التركة سوى ما قضى به للأول ، فإن كان في يده شيء استحلف للثاني ، وإذا أبى اليمين صار مقرا بالدين على أبيه للثاني في الغصب بلا شبهة ، وفي الوديعۃ والعارية بموته مجهلا وصار متملكا غاصبا فيؤمر بقضاء الدين من التركة۔ "رد المحتارعلی الدرالمختار" 25 / 264: ( وتجب القيمة في القيمي يوم غصبه ) إجماعا۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب