021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد اور وقف شدہ مکان میں راستہ
77267وقف کے مسائلمسجد کے احکام و مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے محلے میں تقریبا 60/70 سال قبل ایک راستہ عام کیساتھ مسجد تعمیر ہوئی۔بعد ازاں مسجد میں توسیع کی غرض سے ملحقہ پانی کا نالہ اور راستہ عام کے اوپر چھت ڈال کر مسجد کا صحن بنایا جس پر لوگ نماز پڑھنے لگے اور صحن کے نیچے راستہ اور نالہ بدستور قائم رہا. سال 2014/15 میں مزید توسیع کی غرض سے کچھ مکان خرید کر اور کچھ مکانات مالکان نے مسجد کی توسیع کیلئےوقف کر دیئے۔ تمام مکانات کو مسجد میں ضم کرتے ہوئے نئے سرے سے مسجد تعمیر کروائی ۔ مزیدیہ کہ پرانا راستہ جو مسجد کے صحن کے نیچے تھا، مسجد انتظامیہ، اہل محلہ اور واقفین کی مرضی سے مسجد میں ضم کر کے آخری وقف شدہ مکان میں متفقہ طور پر متبادل راستہ بنایا۔ سائل نے جب اسی راستے کیساتھ اپنی مکان کی توسیع شروع کی تو کچھ افراد اور امام مسجد کی رائے سے مسجد اور مکان کے درمیان اسی راستے کے کچھ حصے پر چھت ڈال کر دو منزلہ مکان تعمیر کروایا۔ چھت اسی نیت کیساتھ ڈالی کہ بارش و دھوپ میں راستہ محفوظ رہیگا اور ہمارا بھی فائدہ رہیگا جو کہ ہمارے گاؤں میں عام ہے۔ اسی طرح کے ہمارے گاؤں میں کئی گھروں اور مساجد کے چھتیں ڈالی جا چکی ہیں، راستہ اب اپنی حدود میں مکمل طور پر آزاد ہے اور عوام الناس کو آمدورفت میں کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ اور ضرر کا سامنا نہیں ہے،بوقت توسیع مکان اہلیان محلہ موجود تھے،لیکن کسی بھی شخص نے اسپر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔تاہم اب ایک شخص جو کہ اس وقت موجود نہیں تھا، کی نظر میں یہ متبادل راستہ والی جگہ مسجد کا حصہ ہے اور یہ خرید کر اسکی قیمت مسجد کو ادا کی جائے ۔حالانکہ یہ راستہ پہلے راستے کا متبادل ہے،محلہ داروں کیمطابق فرق صرف اتنا ہی کہ موجودہ راستہ پہلے راستے سے تین فٹ چوڑائی میں زیادہ ہے۔ مذکورہ بالا واقعات کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالا ت کے جوابات دیجئے:

 سوال نمبر 1- کیا مذکورہ راستہ کی جگہ مسجد شرعی کے حکم (ملکیت )میں ہے؟

سوال نمبر 2- اگر یہ مسجد کی ملکیت ہے تو کیا موجودہ راستے کی قیمت لگا کر مسجد کو ادا کر سکتا ہوں؟

سوال نمبر 3- راستے کی قیمت لگا کر اسکے برابر پیسہ مسجد میں لگانا کیسا ہوگا ؟ تا ہم راستہ اپنی جگہ برقرار رہیگا۔

سوال نمبر 4- کیا شاہراہ عام کے اوپر گھر مدرسہ یا مسجد کی چھت ڈالی جا سکتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

۱۔بوقت ضرورت شارع عام کے بعض حصے کو مسجد میں اور مسجد کے کسی حصے کو شارع عام میں شامل کرنا  درست ہے۔لہذا  عام راستہ کی مذکورہ جگہ پر مسجد بنانے کے بعد وہ حصہ مسجد شرعی کے حکم میں ہو گیا اور جہاں عام راستہ بنایا گیا ہے وہ  مسجد کے حکم میں نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 377)

(جعل شيء) أي جعل الباني شيئا (من الطريق مسجدا) لضيقه ولم يضر بالمارين (جاز) لأنهما للمسلمين (كعكسه) أي كجواز عكسه وهو ما إذا جعل في المسجد ممر لتعارف أهل الأمصار في الجوامع.

 (قوله: جعل شيء) بالبناء للمفعول وشيء نائب فاعل والأصل ما فسر به الشارح وكان المناسب ذكر هذه المسائل فيما مر من الكلام على المسجد (قوله: أي جعل الباني) ظاهره أن أهل المحلة ليس له ذكر ذلك وسنذكر ما يخالفه. مطلب في جعل شيء من المسجد طريقا (قوله: من الطريق) أطلق في الطريق فعم النافذ وغيره وفي عبارتهم ما يؤيده ط وتمامه فيه (قوله: لضيقه ولم يضر بالمارين) أفاد أن الجواز مقيد بهذين الشرطين ط (قوله: جاز) ظاهره أنه يصير له حكم المسجد وقد قال في جامع الفصولين: المسجد الذي يتخذ من جانب الطريق لا يكون له حكم المسجد بل هو طريق بدليل أنه لو رفع حوائطه عاد طريقا كما كان قبله. اهـ. شرنبلالية. قلت: الظاهر أن هذا في مسجد جعل كله من الطريق، والكلام فيما أدخل من الطريق في المسجد، وهذالا مانع من أخذه حكم المسجد حيث جعل منه كمسجد مكة والمدينة وقد مر قبيل الوتر والنوافل في بحث أحكام المسجد أن ما ألحق بمسجد المدينة ملحق به في الفضيلة نعم تحري الأول أولى اهـ فافهم

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 379)

كما قدمناه عن جامع الفصولين يعني أن فيه ضرورة وهي أنهم لو أرادوا الصلاة في الطريق لم يجز فكان في جعله مسجدا ضرورة، بخلاف جعل المسجد طريقا لأن المسجد لا يخرج عن المسجدية أبدا فلم يجز لأنه يلزم المرور في المسجد، ولا يخفى في أن المتبادر من هذا كون المراد مرور أي مار ولو غير جنب، وهذا يؤيد أن هذا قول آخر، وقد علمت ترجيح خلافه وهو جواز جعل شيء منه مسجدا وتسقط حرمة المرور فيه للضرورة لكن لا تسقط عنه جميع أحكام المسجد، فلذا لم يجز المرور فيه لجنب ونحوه كما مر فافهم.

  ۲۔فقہاء کرام نے بوقت ضرورت مسجد کے ایک حصہ کو شارع عام میں تبدیل کرنے کی بھی گنجائش دی ہے جبکہ یہاں صرف مسجد کی وقف جگہ کو  عام راستہ میں دیا گیا ہے۔لہذا مسجد میں کسی قسم کی رقم جمع کرنے کی ضرورت نہیں اور آپ نے بھی چونکہ  شارع عام کے اوپر محض چھت بنائی ہے، لہذا  اگر اس سے عامۃ الناس کو ضرر نہ ہو ،بلکہ فائدہ ہی ہو تو اس کی گنجائش ہے، لیکن بوقت ضرورت مسجد والے آپ کی تعمیر کردہ چھت کو گرانے اور اس حصہ کو بھی مسجد میں شامل کرنے کے مجاز ہونگے۔

مجلة الأحكام العدلية (ص: 235)

إذا كان لأحد داران على طرفي الطريق وأراد إنشاء جسر من واحدة إلى أخرى يمنع ولا يهدم بعد إنشائه إن لم يكن فيه ضرر على المارين لكن لا يكون لأحد حق قرار في الجسر والبروز المنشأين على الطريق العام على هذا الوجه , أما إذا انهدم الجسر المبني على الطريق العام بهذه الصورة وأراد صاحبه بناءه فيمنع أيضا.

 ۳۔بہتر ہے ،لیکن ضروری نہیں۔

 ۴۔ اگر شارع  عام میں گنجائش ہے اورمسجد ومدرسہ کی چھت کی تعمیر سے آنے جانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوگی تواس کی اجازت ہے،البتہ مکمل شارع عام پرذاتی چھت کی تعمیربہر صورت منع ہے۔

حوالہ جات
۔۔۔۔۔۔۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۷ ذیقعدہ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب