021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زکٰوۃ کے متفرق مسائل
56438زکوة کابیانزکوة کے جدید اور متفرق مسائل کا بیان

سوال

ایک میمن شخص اپنی میمن جماعت کو زکاۃ دیتاہے کہ آپ اس جماعت کے مستحقین ممبران میں تقسیم کریں تو اس مسئلے میں میرے کچھ سوالات ہیں۔ (1)زکاۃ کی تقسیم کے سلسلے میں جماعت کی حیثیت اور ذمہ داری کیا ہے؟ (2)جماعت کتنی مدت میں زکاۃ تقسیم کرنے کی پابند ہے؟ (3)اگر مقررہ مدت میں جماعت زکاۃ تقسیم نہ کرسکے تو کیا اس شخص کی زکوۃ ادا ہوجائیگی؟ (4)زکاۃ ادا نہ کرنے کی جو وعیدیں قرآن و سنت میں موجود ہیں،کیا ا ن کااطلاق اس شخص پر ہوگا یا جماعت کے ذمہ داران پر یا دونوں پر؟ (5)کیا بقایا رقوم یا غیر تقسیم شدہ زکاۃ کی رقوم پر بھی زکوۃ لازم ہوگی؟اگر ہاں تو رقم کا حساب (جس پر زکاۃ دینی ہے)کس طرح نکالا جائے اور اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟ (6)کیا بقایارقوم یا غیر تقسیم زکاۃ کی رقوم کو اسلامی بینک میں رکھواکر منافع کمایا جاسکتا ہے؟ (7)کیا اس منافع کو مصارف زکاۃ کے علاوہ دیگر مصارف میں استعمال کرسکتے ہیں؟ (8 )کیا کھال سے حاصل شدہ رقوم کو مصارف زکاۃ کے علاوہ دیگرمصارف میں استعمال کرسکتے ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1) جماعت زکاۃ دینے والے کی طرف سے وکیل ہے،اور اس کی ذمہ داری ہے کہ جلد از جلد یہ رقم مستحقین تک پہنچائے۔ (2) مستحق میسر ہوتے ہی زکاۃ دے دینی چاہیے، اگلے سال کی زکاۃکا دن آنےسے پہلےزکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔اگر اس میں مشکل ہے تواس کا حل یہ ہے کہ یہ جماعت جانبین سے زکاۃ کی وکیل ہوجائے ،زکاۃ دینے والوں کی طرف سے بھی اور زکاۃ لینے والوں کی طرف سے بھی ،یعنی زکاۃ جمع کرنے والوں کی طرح کچھ مستحقین سے بھی اس جماعت کے ارکان وکالت حاصل کرلیں کہ آپ ہماری طرف سے زکاۃ وصول کرنے کےوکیل ہیں،تو اس صورت میں وکیل کو ملتے ہی زکاۃ دینے والے کی زکاۃ ادا ہوجائیگی۔ (3) اگر جماعت صرف زکاۃ دینے والوں کی طرف سے وکیل ہے تو جب تک وہ زکاۃ مستحقین تک نہ پہنچائے اس وقت تک اس شخص کی زکاۃ ادا نہ ہوگی اور جماعت جانبین کی طرف سے وکیل بن جائے تو جماعت کے وصول کرتے ہی زکاۃ دینے والے کی زکاۃ ادا ہوجائیگی۔ (4) اگر جماعت جانبین کی طرف سے وکیل بن جائے ،تو وعیدوں کا اطلاق دونوں پر نہیں ہوگا اور اگر جماعت ایک جانب سے وکیل ہو تو زکاۃ دینے والے کو احتیاط نہ کرنے اور جماعت کو اپنی زمہ داری پوری نہ کرنے گناہ ہوگا ۔ (5) زکاۃ کی جو رقم تقسیم نہیں ہوئی،اس پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔ (6) اسلامی بینک میں حفاظت کی غرض سے رکھنا درست ہے،لیکن کئی سال تک منافع کمانے کی غرض سے رکھنا درست نہیں،کیونکہ زکاۃ کو جلدی مستحقین تک پہنچانے کا حکم ہے۔ (7) اگر زکاۃ سے منافع حاصل کیے ہوں تو اس کو بھی زکاۃ کے مصارف میں استعمال کرنا ضروری ہے۔ (8) نہیں ،کھال کی رقم زکاۃ کے مصارف میں استعمال کرنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: قوله: )فيأثم بتأخيرها إلخ ) :ظاهره الإثم بالتأخير ولو قل كيوم أو يومين ؛لأنهم فسروا الفور بأول أوقات الإمكان .وقد يقال :المراد أن لا يؤخر إلى العام القابل ؛لما في البدائع. ( رد المحتار 6/ 497( قال ابن الھمام رحمہ اللہ: والوجه المختار أن الأمر بالصرف إلى الفقير معه قرينة الفور وهي أنه لدفع حاجته، وهي معجلة،فمتى لم تجب على الفور لم يحصل المقصود من الإيجاب على وجه التمام. (فتح القدير: 3/ 465) قال ابن عابدین رحمہ اللہ: فتكون الزكاة فريضة وفوريتها واجبة فيلزم بتأخيره من غير ضرورة الإثم كما صرح به الكرخي والحاكم الشهيد في المنتقى ؛ وهو عين ما ذكره الإمام أبو جعفر عن أبي حنيفة أنه يكره ، فإن كراهة التحريم هي المحمل عند إطلاق اسمها ، وقد ثبت عن أئمتنا الثلاثة وجوب فوريته. ( رد المحتار 6/498) إنه لا يتصرف على قصد التمول واللحم بمنزلة الجلد في الصحيح حتى لا يبيعه بما لا ينتفع به إلا بعد الاستهلاك فإن بدل اللحم أو الجلد به أي بما ينتفع بالاستهلاك جاز و يتصدق به لانتقال القربة.( مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (4/ 174) قال العلامۃٰ ابن نجیم رحمہ اللہ:ولو باع اللحم جاز بيعه في النوعين ؛لأن ملكه قائم إلا أن فيما لا يجوز له أكله، ويجب عليه التصدق به يتصدق بثمنه ؛لأنه ثمن مبيع واجب التصدق. وهكذا نقله عنه في فتح القدير باختصار، مع أنه قدم أنه ليس له بيع شيء من لحوم الهدايا وإن كان مما يجوز له الأكل منه ،فإن باع شيئا أو أعطى الجزار أجره منه فعليه أن يتصدق بقيمته. (البحر الرائق:3/77 )
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

ریاض احمد صاحب

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / شہبازعلی صاحب