عرض یہ ہے کہ میری بیوی کے طلاق کے سلسلے میں دارالعلوم مظاہر العلوم سے ایک فتوی حاصل کیا تھا میرے اور اہلیہ کے بیان میں اختلاف کی وجہ سے فتوی میں بھی اختلاف ہے تاہم فتوی کی رو سے ایک یا دوطلاقیں واقع ہوئی ہیں تجدید نکاح یا بغیر تجدید آپس میں میاں بیوی کی حثیت سے زندگی جائز ہے لیکن میری بیوی سمجھ رہی ہے تین طلاقیں ہوچکی ہیں ۔
آپ سے درخواست ہے تسلی بخش جواب سے ہمیں مطمئن فرمائیں
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
منسلکہ فتوی فی الجملہ صحیح ہے،البتہ اس کی درج ذیل تفصیل ہے۔
ایک طلاق رجعی تو واقع ہوچکی ہے جس سے رجوع بھی ہوا ہے، دوسری طلاق جو لفظ حرام سے واقع ہوتی ہے اس کے بارے میں اگر شوہر حلفیہ بیان دے کہ اس سے مراد مباشرت کا حرام ہونا تھا تو وہ بھی واقع نہ ہوگی۔اگر حلفیہ بیان نہیں دیتا تو وہ بھی ایک بائن واقع ہوگی۔
تیسری طلاق جو میسجز کے بعد کی ہے،اس کے بارے میں بھی شوہر یہ حلفیہ بیان دے کہ جس وقت اس نےبیوی کو میسج آگے بھیجنے پر ایک او رطلاق کا اضافہ کرنے کہا تھااس وقت اس کا دماغ ذہنی دباؤ کم کرنے والی ادویہ ہی وجہ سے بالکل ماؤف تھا۔وہ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا اور اس نے کوئی ناجائز نشہ بھی نہیں کیا تھا ان دونوں حلفیہ بیانوں کے بعد ایک ہی طلاق سمجھی جائے گی جس سے رجوع ہوچکاہے،اگر شوہر بالکل حلفیہ بیان نہ دے تو دو بائن طلاقیں واقع ہوں گی۔بہر صورت نکاح جدید کی گنجائش ہے۔بیوی کا یہ سمجھنا کہ تین طلاقیں ہوچکی ہیں درست نہیں۔