021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
والد خدمت کا محتاج ہوتو علم کی تکمیل کا حکم
56841علم کا بیانعلم کے متفرق مسائل کابیان

سوال

بندہ کے والد ِمحترم شدیدبیمارہے، انہیں شوگراورپھیپھڑوں کی ٹی بی ہے جس کی وجہ سے وہ ابھی چارپائی پرہی قضائے حاجت کرتے ہیں اورکھانا تناول فرماتے ہیں ،بندہ کے تین بڑے بھائی ہیں: ایک ائیرفورس میں ہے، دوسراے بھائی صبح وشام نوکری میں مصروف ہے ،جبکہ تیسرے بھائی نوکری بھی کرتے ہیں اورگھر پر بھی ہوتے ہیں، میرے والدِ محترم کافی عرصہ سے بیمار ہے ،جبکہ پچھلے دو برس سے ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہوچکی ہے جس کے سبب کبھی ہسپتال میں "آئی سی یو" میں یا پھر "میڈیکل وارڈ" میں ایڈمٹ ہوتے ہیں اورکبھی گھر پر ہوتے ہیں، تینوں بھائیوں نے والدِ محترم کی خدمت ودیکھ بھال کے لیے سال میں جتنی چھٹیاں مل سکتی تھی اس سے زیادہ کرلیں ہیں، اب ان کو چھٹی لینے میں مشکل ہوتی ہے ،جبکہ ائیرفورس والے اوردوسرے نمبر والے بھائی کا گھرمیں آنا جانا کافی کم رہتاہے اورتیسرے نمبر والے بھائی کو دیکھ بھال میں مشقت ہوتی ہے، کیونکہ ان کا ایکسیڈنٹ ہواتھا نیز ان کی اولاد بھی کبھی بیمارہوتی ہیں جس کے سبب یہ پوچھناہے کہ آیا مجھ پر ابھی تعلیم حاصل کرناضروی ہے یا والد محترم کی خدمت کرنا؟ابھی تو والدہ محترمہ بھی ہمشیرہ کی بیماری کی وجہ سے گاوں گئی ہوئی ہے، اب بھائی جب نوکری پر ہوتے ہیں تو والد ہ محترمہ کے نہ ہونے کے سبب والد صاحب کو قضائے حاجت میں دشواری ہوتی ہے۔برائے کرم اس حوالے سے بتایاجائے کہ اب میں اسی مدرسہ میں تعلم جاری رکھوں ،جبکہ بندہ کا گھر جامعہ الرشید سے کافی فاصلہ پر ہے جس کے سبب صبح اسباق میں پہنچنا مشکل ہوتا ہے،یامدسہ تبدیل کروں یافی الحال اپنی دینی تعلیم موقوف کردوں ؟جزاکم اللہ خیرا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً والد بیماری کی وجہ سے آپ کے جسمانی خدمت کے محتاج ہیں اوران کے گزارے کی کوئی اورصورت نہیں یعنی کوئی اور بھائی اپنے اعذار کی وجہ سے خدمت نہیں کرسکتے یا وہ کرنا نہیں چاہتےتو اس صورت میں آپ کے لیے والد کی اجازت کے بغیر علم حاصل کرناجائز نہیں،ایسی صورت میں بہترصورت ہے یہ ہے کہ آپ دونوں کاموں (علم اورخدمت) کوجمع کریں اور اپنے ہی مدسہ میں تعلیم حاصل کریں،اگر ایسا ممکن نہ ہوسکے تو قریب کے مدرسہ میں خدمت کے ساتھ ساتھ تعلیم کاسلسلہ جاری رکھیں اوراگرایسا بھی نہ ہوسکے تو کچھ وقت کے لیے تعلیم کو موقوف کردیں اوروالد کی خدمت کریں،فارغ اوقات میں دینی کتب کا مطالعہ جاری رکھیں اوریہ نیت رکھیں کہ فرصت ملنے پران شاء اللہ دینی علوم کی تکمیل کروں گا۔
حوالہ جات
وفی فتاوى قاضيخان (3/ 262) رجل خرج في طلب العلم بغير إذن والديه فلا بأس به و لم يكن هذا عقوقا * قيل هذا إذا كان ملتحيا فإن كان أمرد صبيح الوجه فلأبيه أن يمنعه من الخروج * ولو أراد أن يخرج للحج و أبوه كاره لذلك قالوا إن كان الأب مستغنيا عن خدمته لا بأس بأن يخرج * و إن لم يكن مستغنيا لا يسعه الخروج لما روي عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال ما من رجل ينظر إلى والديه نظر رحمة إلا كانت له بها حجة مقبولة قيل يا رسول الله وإن نظر في اليوم مائة مرة قال وإن نظر إليه في اليوم مائة مرة فإن كان أبواه يحتاجان إلى النفقة ولا يقدر أن يخلف لهما نفقة كاملة أو يمكنه ذلك إلا أن الغالب على الطريق هو الخوف فلا يخرج بغير إذنهما وإن كان الغالب هو السلامة فله أن يخرج * و ذكر في بعض الروايات أن الرجل لا يخرج إلى الجهاد إلا بإذن والديه فإن أذن له أحدهما و لم يأذن له الآخر لا ينبغي له أن يخرج وهما في سعة من أن يمنعاه إذا دخل عليهما مشقة لأن مراعاة حق الوالدين فرض عين و الجهاد فرض كفاية۔..... هذا إذا كان السفر سفر جهاد فإن كان السفر سفر تجارة أو حج لا بأس بأن يخرج بغير إذن والديه إذا استغنى الأبوان عن خدمته لأنه ليس قي هذين السفرين إبطال حق الوالدين إذا لم يكن الطريق مخوفا فإن كان مخوفا مثل البحر لا يخرج إلا بإذن والديه وإن كانا مستغنيين عن خدمته...... وكذا لو خرج للتعلم يضيع عياله يراعي حق العيال. وفی فتاوى قاضيخان ایضاً (3/ 350) وإن أراد أن يخرج في طلب العلم بغير إذن والديه لم يذكر هذا في الكتاب وزعم المتأخرون أن له أن يخرج إذا لم يكن السفر مخوفاً واستغنيا عن خدمته. وفی بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 98) والأصل أن كل سفر لا يؤمن فيه الهلاك، ويشتد فيه الخطر لا يحل للولد أن يخرج إليه بغير إذن والديه؛ لأنهما يشفقان على ولدهما فيتضرران بذلك، وكل سفر لا يشتد فيه الخطر يحل له أن يخرج إليه بغير إذنهما إذا لم يضيعهما؛ لانعدام الضرر، ومن مشايخنا من رخص في سفر التعلم بغير إذنهما؛ لأنهما لا يتضرران بذلك بل ينتفعان به، فلا يلحقه سمة العقوق وفی درر الحكام شرح غرر الأحكام (1/ 323) رجل خرج في طلب العلم بغير إذن والديه فلا بأس به ولا يكون عقوقا قيل هذا إذا كان ملتحيا، وإن كان أمرد فلا بد أن يمنع من الخروج ومراده بالعلم العلم الشرعي. وفی الفتاوى الهندية (5/ 366) رجل خرج في طلب العلم بغير إذن والديه فلا بأس به ولم يكن هذا عقوقا قيل هذا إذا كان ملتحيا فإن كان أمرد صبيح الوجه فلأبيه أن يمنعه من ذلك الخروج كذا في فتاوى قاضي خان.ولو خرج إلى التعلم إن كان قدر على التعلم وحفظ العيال فالجمع بينهما أفضل ولو حصل مقدار ما لا بد منه مال إلى القيام بأمر العيال ولا يخرج إلى التعلم إن خاف على ولده كذا في التتارخانية ناقلا عن الينابيع.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید حکیم شاہ صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب