021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لیکوریا کا حکم
57139پاکی کے مسائلمعذور کے احکام

سوال

عورت کی شرم گاہ سے سفید مائع (لیکوریا) نکلتا ہے،جو تقریبا ہر وقت نکلتا رہتا ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ کیا اس کے لیے کوئی حد مقرر ہے؟ مفصل راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

یہ نجس ہوتا ہے اور اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔لیکن اگر عورت کو نماز کے پورے وقت میں اتنا موقع بھی نہیں ملتا کہ وہ وضو کر کےفرائض وواجبات کےساتھ فرض نماز ادا کر سکے تو یہ شرعاً معذور ہے۔ معذور کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ جس نماز کے لیے وضو کرے گی،جب تک اس نماز کا وقت باقی ہے ،اس کا وضو برقرار رہے گا،چاہے اس دوران لیکوریا کا پانی نکلتا رہے۔وہ اس دوران جتنے فرائض و نوافل پڑھنا چاہے پڑھ سکتی ہے۔نماز کا وقت ختم ہوتے ہی اس کا وضو ٹوٹ جائے گا،اگلی نماز کے لیے نیا وضو ضروری ہے۔البتہ اگر اس دوران وضو ٹوٹنے کا کوئی اور سبب پایا گیا تو اس کی وجہ سے اس کا وضو ٹوٹ جائے گا۔ ایک دفعہ معذور بن جانے کے بعد معذوری برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت میں کم از کم ایک دفعہ اسےیہ عذر پیش آئے،اگر ایک نماز کا وقت بغیر عذر کے گزر گیا تو یہ عورت معذور نہیں رہے گی۔لہذا اس صورت میں اس کا وضو اس نجس پانی کے نکلنے سے ٹوٹ جائے گا۔ کپڑوں کا حکم یہ ہے کہ اگر کپڑوں پر لگی نجاست ایک درہم سے زیادہ ہے،اور اس عورت کو اطمینان ہے کہ کپڑے دھو لینے کے بعد نماز سے فارغ ہونے تک دوبارہ پانی نہیں نکلے گا تو اس پر لازم ہے کہ نماز سے پہلے کپڑے دھو لے۔البتہ اگر اسے یقین ہے کہ ایک دفعہ کپڑے دھونے کے بعد نماز سے فارغ ہونے سے پہلے دوبارہ پانی نکل آئے گاتو اس صورت میں کپڑوں کا دھونا ضروری نہیں۔ البتہ اس صورت میں بھی اگلی نماز کے لیے کپڑے دھونا ضروری ہیں۔

حوالہ جات
(الدر المختارمع رد المحتار:1/ 313) رطوبة الفرج، فيكون مفرعا على قولهما بنجاستها…..ومن وراء باطن الفرج فإنه نجس قطعا ككل خارج من الباطن كالماء الخارج مع الولد أو قبيله. الدر المختارمع رد المحتار:1/ 305 (وصاحب عذر، من به سلس بول…..إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة)بأن لا يجد في جميع وقتها زمنا يتوضأ، ويصلي فيه خاليا عن الحدث(ولو حكما) ؛لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم.(وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرة،(وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت (ثم يصلي) به (فيه فرضا ونفلافإذا خرج الوقت بطل …..(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى،…..(و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره ،و لم يطرأ عليه حدث آخر.

تنویر الطاف: افتاء

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

04/06/1438

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد تنویر الطاف صاحب

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / فیصل احمد صاحب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے