ایک خاتون کی شادی کو دو مہینے ہوئے ناچاقی کی وجہ سے شوہر کے طلاق نہ دینے پر عدالت سے خلع لے لیا اب اس کا اگلے ماہ دوسری جگہ نکاح ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ فقہ حنفی کے مطابق یہ عدالتی خلع قابل اعتبار ہے اور خاتون دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔؟ (اب تو دوسری جگہ نکاح کی تاریخ بھی پکی ہوگئی ہے۔)
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
خلع کے لیے شوہر کی رضامندی ضروری ہے، اس کے بغیر شرعا خلع معتبر نہیں، لہذا شوہر کی رضامندی کے بغیر لی گئی خلع کی بنا پر نکاح ختم نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسی عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔
حوالہ جات
قال الإمام الکاسانی رحمہ اللہ : وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول. (بدائع الصنائع 3/ 145)
قال الامام الزیلعی رحمہ اللہ: إذ لا ولاية لأحدهما في إلزام صاحبه بدون رضاه. والطلاق بائن؛ لأنها ما التزمت المال، إلا لتسلم لها نفسها، وذلك بالبينونة. ( تبيين الحقائق 2/ 271)
کذا فی أحسن الفتاوی:5/384.