021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ
57619خرید و فروخت کے احکامخرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

اس کے علاوہ دوسری صورت یہ پوچھنی ہے کہ میرا اسلامی بینک کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا اور انہوں نے اس حوالے سے مجھے کار خرید کردی اور مجھ پر قسطیں مقرر کی ہیں۔ البتہ جب بعض قسطیں میں نے ادا نہیں کیں تو انہوں نے کچھ اضافی رقم مجھ سے جرمانے کے نام پر وصول کی۔ یہی رقم اگر سودی بینک والے ہم سے لیں تو ہم اسے Interest (سود) کہتے ہیں اور اسلامی بینک لیں تو ہم انہیں Bank Charges)) کہتے ہیں۔ اس حوالے سے کچھ تشویش ہے۔ برائے کرم اس حوالے سے آپ میری شرعی رہنمائی کریں۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اسلامی بینک اجارہ پر یا قسطوں میں کارفراہم کرتے وقت گاہک کے ساتھ الگ سے یہ معاہدہ کرتا ہے کہ گاہک قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں ایک مخصوص رقم صدقہ کرےگا۔ اسے اصطلاح میں التزام تصدق کہتے ہیں۔ فقہائے احناف کے ہاں وعدہ اگر کسی شرط کے ساتھ مشروط ہو تو اس کو پورا کرنا لازم ہے۔اس صدقہ کو اسلامی بینک اپنے مفاد میں استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی اس کو مبیع (خریدی ہوئی چیز) کی قیمت کا حصہ بناتا ہے۔ بلکہ اس پر قانونی طور پر لازم ہوتا ہے کہ وہ یہ رقم ( چیئرٹی فنڈ) حکومت سے منظور شدہ کسی خیراتی ادارے کے حوالے کرے۔ سودی بینک قسطوں میں تاخیر ہونے کی صورت میں خریدار پرجو جرمانہ لگاتا ہےاس کو وہ ذاتی حق کے طور پر وصول کرتاہےجو سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔لہذا اسلامی بینک کا تاخیر پر زائد رقم کا مطالبہ مالی جرمانہ نہیں اور اس کی گنجائش ہے۔
حوالہ جات
"و مما یجب التنبیه علیه هنا: ان ما ذكر من جواز هذا البیع انما هو منصرف الی زیادۃ فی الثمن فی نفسه، اما مایفعله بعض الناس من تحدید ثمن البضاعۃ علی اساس سعرالنقد، وذكر القدر الزائد علی انه جزء من فوائد التاخیر فی الاداء، فانه ربا صراح، وهذا مثل ان یقول البائع: بعتك هذه البضاعۃ بثمانی ربیات نقدا، فان تاخرت فی الاداء الی مدۃ شهر، فعلیك ربیتان علاوۃ علی الثمانیۃ، سواء سماها فائدۃ (Interest) او لا، فانه لا شك فی كونه معاملۃ ربویۃ، لان ثمن البضاعۃ انما تقرر كونه ثمانیۃ، وصارت هذه الثمانیۃ دینا فی ذمۃ المشتری، فما یتقاضی علیه البائع من الزیادۃ فانه ربا لا غیر" ( بحوث فی قضایا فقھیۃ معاصرۃ1/15 ط:مکتبۃ دار العلوم کراتشی) "القول الخامس: أن إنجاز الوعد المجرد غير واجب، أما الوعد المعلق على شرط، فإنه يكون لازما، وهو مذهب الحنفية، حيث نقل ابن نجيم عن القنية: لا يلزم الوعد إلا إذا كان معلقا (3) وفي الفتاوى البزازية: أن المواعيد باكتساء صور التعليق تكون لازمة (4) . ونصت المادة (84) من مجلة الأحكام العدلية: المواعيد بصور التعاليق تكون لازمة. مثال ذلك: لو قال شخص لآخر: ادفع ديني من مالك، فوعده الرجل بذلك، ثم امتنع عن الأداء، فإنه لا يلزم الواعد بأداء الدين، أما قول رجل لآخر: بع هذا الشيء لفلان، وإن لم يعطك ثمنه فأنا أعطيه لك، فلم يعط المشتري الثمن،" (الموسوعة الفقهية الكويتية44/75 ) "ولا يلزم الوعد إلا إذا كان معلقا كما في كفالة البزازية، وفي بيع الوفاء كما ذكره الزيلعي." (الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 247)ط: دار الکتب العلمیۃ)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد کامران

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب