سائل کو مطلوب یہ ہے کہ سونے کی خرید و فروخت کے وقت اگر زید بکر کو 10تولہ سونا آج کی تاریخ میں خرید کر 10 مہینے کی ادھار پر بکر کو فروخت کردے، جبکہ بکر اسے 10 مہینے میں قسط وار پیسے ادا کرے سونے کی خریدی ہوئی قیمت سے دس ہزار زیادہ میں ، یعنی اگر 50 ہزار کی خرید ہے تو بکر ہر مہینے 60 ہزار (فی تولہ ) کی قسط ادا کرے گا دس مہینے تک۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
چونکہ سونے کو روپوں کے بدلے فروخت کرنے کا معاملہ عقد صرف نہیں ہے ،لہذا سونے کو روپوں کے بدلے ادھار فروخت کرنا اور باہمی رضامندی سے قیمت کی ادائیگی کے لیے قسطیں مقرر کرنا جائز ہے، البتہ اس میں درج ذیل چند شرائط ہیں:
(1) خرید وفروخت کی مجلس میں سونے پر قبضہ ہوجائے۔
(2) قیمت اس دن کے بھاؤ کے مطابق ہو،ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے۔کیونکہ ایسی صورت میں یہ معاملہ آسانی سے ربا کا حیلہ بن سکتا ہے۔
(3) قیمت کی ادائیگی کی مدت معلوم ہو، مثلا ایک ہفتہ، ایک ماہ یا ایک سال ۔
(4) قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں قیمت کا اضافہ نہ کیا جائے اور نہ ہی کوئی جرمانہ لگایا جائے۔
پوچھے گئے مسئلہ میں چونکہ ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ کیا جارہا ہے، لہذا یہ معاملہ شرعا جائز نہیں۔
حوالہ جات
"ثم ان ھذہ الاواق النقدیۃوان کان لایجوز فیھا التفاضل ولکن بیعھا لیس بصرف۔۔فیصح فیھا التاجیل عند اختلاف الجنس، قال شمس الائمۃ السرخسی رحمہ اللہ تعالٰی:"اذا شری الرجل فلوسا بدراھم ونقد الثمن ولم تکن الفلوس عندالبائع ،فالبیع جائز۔۔" فصار البیع حینئذ بیعا بثمن مؤجل،وذلک جائز فی الاجناس المختلفۃ۔۔ "
بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ(1/167)
"ولکن اختلاف الاثمان ھذا انما یجوز ذکرھا عند المساومۃ، واما عقد البیع فلا یصح الا اذا اتفق الفریقان علی اجل معلوم وثمن معلوم،فلابد من الجزم باحد الشقوق المذکورۃ فی المساومۃ"
بحوث فی قضایا فقہیۃ معاصرۃ(1/9)