کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس ،مسئلے کے بارے میں کہ:
اگر کسی خاتون کے پاس دو یا ایک تولہ سونا زیورات کی شکل میں ہو(جو حالیہ دنوں میں نصاب زکوۃ تک پہنچتا ہے باعتبار چاندی کے) تو اس پر زکوۃ ہےیا نہیں؟ جبکہ اس کے ساتھ کچھ نقدی پیسے بھی ہو؟
اگر ہے اور یہ سونا اس کے پاس تقریباً 20 سال سے موجود ہو، اب اگر 20 سال کی زکوۃ کا قضاء نکالیں گے، اب جب حساب لگاتے ہیں تو مثلاً دس سال کے قضائے زکوۃ نکالنے پر وہ اصل نصاب سے بھی نیچے جاتا ہےجیسے : 50 ہزار کے زیورات ہو، اور نصاب مثلاً 40 ہزار ہو، تو 20 سالوں کا قضائے زکوۃ نکالنے پر نصاب سے اتر کر 30 ہزار باقی رہ جاتا ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس صورت میں کیا کریں؟
آیا پورے 20 سالوں کی زکوۃ دے یا جہاں تک نصاب گھٹتا ہو اتنا دیں؟
مفصل جواب دے کر ممنون فرمائیں۔
o
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں اگرکسی خاتون کے پاس دو یا ایک تولہ سونا زیورات کی شکل میں ہو(جو حالیہ دنوں میں نصاب زکوۃ تک پہنچتا ہے باعتبار چاندی کے)اور اس کے ساتھ اس کے پاس کچھ نقدی رقم بھی ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہے۔البتہ اگر ان کے پاس یہ سونا 20 سال سے موجود ہو اور اس کے ساتھ کچھ نقدی پیسے بھی ہوں اور انہوں نے 20 سال تک زکوۃ ادا نہ کی ہو توان پر لازم تھا کہ وہ ہر سال 2.5% کے حساب سے زکوۃ ادا کرتی، اب چونکہ ادائیگی میں تاخیر ہوئی ہےلہذا وہ گذشتہ سالوں کی زکوۃ 52.5 تولہ چاندی کی قیمت کے حساب سے ادا کریں اور اگلے سالوں کی زکوۃ نکالنے سے پہلے وہ پچھلے سالوں کی زکوۃ کی رقم منہا کریں۔ اس لیے کہ یہ ان پر دین ہوچکا ہے اور زکوۃ کی رقم نکالنے سے پہلے دین منہا کیا جاتا ہے۔اب اگر گذشتہ سالوں کی زکوۃ کا حساب کرتے ہوئےجس سال رقم نصاب سے کم رہ جائے تو آئندہ سالوں کی زکوۃ اس پر لازم نہیں ہوگی۔
مثال کے طور پر عورت کے پاس ایک تولہ سونا ہو اور کچھ نقدی رقم ہو جو 50ہزار کے برابر ہوں توان پر پہلے سال 50 ہزار روپےکی زکوۃ 2.5% کے حساب سے 1250 روپے لازم ہوں گے۔ اگلے سال 50 ہزار روپے میں سے 1250 روپے منہا کرکے 48750 روپے پر 1219 روپے کی زکوۃ لازم ہوگی۔اس طرح زکوۃ کا حساب کرتے ہوئے گیارہویں سال میں 38310 روپے پر 970 روپے کی زکوۃ لازم ہوگی اور جب 38810 روپے میں سے 970 روپے منہا کریں گے تو 37840 روپے بچیں گے، لہذا بارہویں سال کی زکوۃ لازم نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ 52.5 تولہ چاندی کی موجودہ قیمت 38325 روپے ہےاور گیارہویں سال زکوۃ کی رقم نکالنے کے بعد 37840 روپے بچ گئے ہیں جو کہ زکوۃ کے نصاب سے کم ہے۔
حوالہ جات
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام)… (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد، ولو كفالة أو مؤجلا، ولو صداق زوجته المؤجل للفراق ونفقة لزمته بقضاء أو رضا… (قوله: سواء كان) أي الدين (قوله كزكاة) فلو كان له نصاب حال عليه حولان ولم يزكه فيهما لا زكاة عليه في الحول الثاني، وكذا لو استهلك النصاب بعد الحول ثم استفاد نصابا آخر وحال عليه الحول لا زكاة في المستفاد لاشتغال خمسة منه بدين المستهلك؛ أما لو هلك يزكي المستفاد لسقوط زكاة الأول بالهلاك بحر"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)2/259 ط:دار الفکر-بیروت)
"وأما الزكاة الواجبة في النصاب أو دين الزكاة بأن أتلف مال الزكاة حتى انتقل من العين إلى الذمة فكل ذلك يمنع وجوب الزكاة في قول أبي حنيفة ومحمد سواء كان في الأموال الظاهرة أو الباطنة… وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة."
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع2/7 ط:دار الکتب العلمیۃ)
"وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء. وفي السوائم يوم الأداء إجماعا، وهو الأصح…(قوله وهو الأصح) أي كون المعتبر في السوائم يوم الأداء إجماعا هو الأصح فإنه ذكر في البدائع أنه قيل إن المعتبر عنده فيها يوم الوجوب، وقيل يوم الأداء. اهـ.وفي المحيط: يعتبر يوم الأداء بالإجماع وهو الأصح اهـ فهو تصحيح للقول الثاني الموافق لقولهما، وعليه فاعتبار يوم الأداء يكون متفقا عليه عنده وعندها"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)2/286 ط:دارالفکر –بیروت)
"(وشرط كمال النصاب) ولو سائمة (في طرفي الحول) في الابتداء للانعقاد وفي الانتهاء للوجوب (فلا يضر نقصانه بينهما) فلو هلك كله بطل الحول... (وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين) لأن الكل للتجارة وضعا وجعلا (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة) وقالا بالإجزاء، فلو له مائة درهم وعشرة دنانير قيمتها مائة وأربعون تجب ستة عنده وخمسة عندهما"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)2/302 ط: دارالفکر- بیروت)
"(ولأن السبب هو المال النامي) ش: أي سبب وجوب الزكاة هو المال النامي، أي ملك النصاب النامي م: (ولا نماء إلا بالقدرة على التصرف ولا قدرة عليه) ش: أي على التصرف فلا زكاة، وذلك لأن النماء شرط لوجوب الزكاة، وقد يكون النماء تحقيقا، كما في عروض التجارة، أو تقديرا كما في التقدير والمال الذي لا يرجى عوده لا يتصور تحقق الاستنماء فيه، فلا يقدر الاستنماء أيضا كذلك."
(البناية شرح الهداية3/306 ط:دار الکتب العلمیۃ)