021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
خریدوفروخت میں ثمن طے کرنا ضروری ہے
57879خرید و فروخت کے احکامبیع فاسد ، باطل ، موقوف اور مکروہ کا بیان

سوال

ایک دوکاندار کے پاس کسی چیز کو خریدنے کے لیے گاہک آیا لیکن اس کے پاس خود دوکان میں وہ چیز نہیں تھی چنانچہ ساتھ والے دوکاندار سے وہ چیز کچھ کہے بغیر لے کر آئے اور گاہک پر وہ چیز بیچ دی اور ثمن وصول کرکے کچھ منافع اپنے پاس رکھا اور باقی ساتھ والے دوکاندار کو اس چیز کے بدلے دے دیے اور چونکہ ساتھ والے دوکاندار کے ساتھ ثمن کی کوئی بات نہیں کی ہے تو ممکن ہے کہ وہ اس قیمت پر اس چیز کو نہیں بیچنا چاہ رہا ہو جس قیمت پر اس نے بیچا، لہذا ایسا کرنے سے جھگڑے کا اندیشہ ہے اور ثمن بھی مجھول ہے تو ایسا کرنا جائز ہوگا یا نہیں۔ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر دوکاندار نے ساتھ والے دوکاندار سے پہلے سےثمن طے کیا ہوا تھا کہ "جب کوئی گاہک مجھ سے چیز خریدنے آئے اور وہ میرے پاس نہ ہو تو تم مجھے اتنے روپے پر چیز دے دینا" تو یہ معاملہ درست ہے۔ اس لیے کہ یہاں ثمن طے ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کا ثمن عرفاً معلوم ہو ان میں بھی اس طرح معاملہ کرنے کی گنجائش ہے،البتہ اگر ثمن نہ پہلے سے طے کیا ہو اور نہ معروف ہو تو پھر یہ بیع فاسد ہوگی۔
حوالہ جات
"أما الثالث: وهو شرائط الصحة فخمسة وعشرون: منها عامة ومنها خاصة، فالعامة لكل بيع شروط الانعقاد المارة؛ لأن ما لا ينعقد لا يصح، وعدم التوقيت، ومعلومية المبيع، ومعلومية الثمن بما يرفع المنازعة فلا يصح بيع شاة من هذا القطيع وبيع الشيء بقيمته، أو بحكم فلان" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)4/505 ط:دار الفکر-بیروت) "(قوله: فبطل حط الكل) أي بطل التحاقه مع صحة العقد، وسقوط الثمن عن المشتري خلافا لما توهمه بعضهم من أن البيع يفسد أخذا من تعليل الزيلعي بقوله؛ لأن الالتحاق فيه يؤدي إلى تبديله؛ لأنه ينقلب هبة أو بيعا بلا ثمن فيفسد، وقد كان من قصدهما التجارة بعقد مشروع من كل وجه فالالتحاق فيه يؤدي إلى تبديله فلا يلتحق به اهـ. فقوله: فلا يلتحق صريح في أن الكلام في الالتحاق، وأن قوله فيفسد مفرع على الالتحاق كما صرح به في شرح الهداية، وقال في الذخيرة: إذا حط كل الثمن أو وهب أو أبرأ عنه، فإن كان قبل قبضه صح الكل، ولا يلتحق بأصل العقد، وفي البدائع من الشفعة ولو حط جميع الثمن يأخذ الشفيع بجميع الثمن، ولا يسقط عنه شيء؛ لأن حط كل الثمن لا يلتحق بأصل العقد؛ لأنه لو التحق لبطل البيع؛ لأنه يكون بيعا بلا ثمن، فلم يصح الحط في حق الشفيع وصح في حق المشتري وكان إبراء له عن الثمن اهـ." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)5 /155 ط:دار الفکر-بیروت)
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

فیصل احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب