کئی لوگوں کو مشترکہ طور پرکوئی چیز ہبہ کرنے کا بیان
سوال
سوال :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیافرماتے ہیں علماءکرام اورمفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والدمحترم ممتازعلی کادوسال پہلے انتقال ہوگیاہے،والدصاحب نے تقریباچالیس سال پہلے گھرکے لئے ایک پلاٹ تقریبا 1260 فٹ کاخریداجووالدصاحب کے نام پرہے،اس کے بعد اس پلاٹ کے ساتھ ایک دوسراپلاٹ جوتقریبا 517 فٹ تھا،بکاتووالد صاحب نے وہ پلاٹ خریدااورکاغذات میں اپنے چھوٹے بیٹے اورمیرے چھوٹے بھائی امجدالاسلام کے نام پرلکھوایا،اس وقت امجد کی عمر تقریبا 5 یا6 سال تھی،ان دونوں پلاٹوں کوملاکرایک گھربنایاگیاہے۔
اب امجد کا کہناہےکہ والدصاحب گھرمجھ کودے کراورمیرے نام کرواکرگئے تھے،پوراگھرمیراہے،والدصاحب کی زندگی میں امجد کی گھرمیں ملکیت کی کوئی بات نہیں تھی،والدصاحب نے ورثہ میں 5بیٹے اور4 بیٹیاں چھوڑی ہیں،والدہ محترمہ،دادا،دادی،نانااورنانی کاپہلے سے انتقال ہوچکاہے۔
شریعت محمدی کے مطابق امجد کاحصہ اوردوسرے ورثہ کاحصہ بتائیں گے تومیں آپ کاشکرگزاررہوں گا۔
تنقیح:دونوں پلاٹوں پرمکان والدصاحب نے اپنی زندگی میں بنوایاتھا،اورزندگی میں مکان دوبیٹوں(امجدالاسلام اورایک دوسرابھائی) کےقبضہ میں بھی دیدیاتھااوروالد کی زندگی سے دوبھائی اس مکان میں رہ رہے ہیں،دوبیٹوں میں مکان الگ الگ تقسیم کرکے ہبہ کردیاتھا( نیچے والے حصہ میں امجدکی رہائش ہے،اوپروالے حصے میں دوسرابیٹارہتاہے)۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں موجودہ مکان میں وراثت جاری نہیں ہوگی،بلکہ اس میں 517 فٹ کا پلاٹ جوامجد کے نام ہے،وہ اسی کا ہوگا،کیونکہ ہ پلاٹ جب والد نے اسی کے نام کیاتھا،تووہ نابالغ تھا،اورنابالغ کوہبہ(گفٹ)کرنے سے عقداس طرح مکمل ہوجاتاہے کہ گفٹ کی گئی چیز پروالد کاقبضہ ہی نابالغ کے قبضہ کے لئے کافی ہوجاتاہے۔
اوردوسراپلاٹ اگرچہ کاغذات میں والد کے نام ہے،لیکن چونکہ والد نے اپنی زندگی ہی میں مکان بناکر دوبیٹوں(امجدالاسلام اورایک دوسرابھائی) میں الگ الگ تقسیم کرکے ان کوقبضہ بھی دیدیا تھی،اس لئے اس پلاٹ میں بھی وراثت جاری نہیں ہوگی، ،جن بیٹوں کوزندگی میں قبضہ دیاگیاہے،انہی کاشمارہوگا،باقی ورثہ کااس میں کوئی حصہ نہ ہوگا،البتہ چونکہ امجدالاسلام کے نام صرف 517 فٹ پلاٹ کیاگیاتھا،اس لئے اس کا پورے مکان کادعوی کرنادرست نہیں،اورنہ ہی وہ شرعااس کاحق دارہے۔
حوالہ جات
"شرح المجلۃ" 1 / 473 :
ویملک الموھوب لہ الموھوب بالقبض فالقبض شرط لثبوت الملک ۔
"شرح المجلۃ" 1 /462 :
وتتم بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل ۔
"العناية شرح الهداية" 12 / 277: قال ( ولا تجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة إلخ۔
"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع"13 / 356: وهبة المشاع فيما يقسم لا تنفذ إلا بالقسمة والتسليم۔
"رد المحتار"24 / 35:
( وهبة من له ولاية على الطفل في الجملة ) وهو كل من يعوله فدخل الأخ والعم عند عدم الأب لو في عيالهم ( تتم بالعقد ) لو الموهوب معلوما وكان في يده أو يد مودعه ، لأن قبض الولي ينوب عنه ، والأصل أن كل عقد يتولاه الواحد يكتفى فيه بالإيجاب۔
الشرح:( قوله : على الطفل ) فلو بالغا يشترط قبضه ، ولو في عياله تتارخانية ( قوله : في الجملة ) أي ولو لم يكن له تصرف في ماله ( قوله : بالعقد ) أي الإيجاب فقط كما يشير إليه الشارح كذا في الهامش ، وهذا إذا أعلمه أو أشهد عليه ، والإشهاد للتحرز عن الجحود بعد موته والإعلام لازم لأنه بمنزلة القبض بزازية ، قال في التتارخانية : فلو أرسل العبد في حاجة أو كان آبقا في دار الإسلام فوهبه من ابنه صحت فلو لم يرجع العبد حتى مات الأب لا يصير ميراثا عن الأب ا هـ ۔
( قوله : ولو الموهوب إلخ ) لعله احتراز عن نحو وهبته شيئا من مالي تأمل ، ( قوله : معلوما ) قال محمد - رحمه الله - : كل شيء وهبه لابنه الصغير ، وأشهد عليه ، وذلك الشيء معلوم في نفسه فهو جائز۔