021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مختلف جملوں میں تعلیق کاحکم
57971طلاق کے احکامطلاق کو کسی شرط پر معلق کرنے کا بیان

سوال

جواب میں مشتری نے کہا:"اے استاذاگرآپ نے صحیح شرعی فیصلہ کیاتوپھرہم کسی اورکے پاس دوبارہ شرعی فیصلہ کے لئے نہیں جائیں گے"،اوراس کے فورابعد میں نے زبانی جملہ یہ کہاکہ:" ایک دوتین میری دو بیویاں طلاق ہوجائیں گی"،اس کے بعد تین کنکریاں جومیرے ہاتھ میں پکڑائی گئیں تھیں ان کوپھینکا،مقصود میرے اس طرح قسم کھانے کایہ تھااوراس نیت سے ہی میں نے بے ربط الفاظ اداکئے تھے کہ اگریہ مولوی صاحب صحیح شرعی فیصلہ کرے گاتومیں مانوں گاورنہ شرعی فیصلہ کے لئے دوبارہ کسی اورسے رجوع کروں گا۔ جوقسم مشتری نے مذکورہ بالاالفاظ سے اٹھائی ہے اب چوں کہ ظاہرمیں یہ فیصلہ مشتری کے ساتھ ناانصافی پرمبنی ہے،اس لئے اگردوبارہ یہ فیصلہ کسی جرگہ،شریعت یاعدالت سے کروانے کے لئے رجوع کرلے توطلاقیں واقع ہوں گی یانہیں ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگرآپ کسی اورسے فیصلہ کروائیں گے تو آپ کی دونوں بیویوں پرتین طلاق واقع ہوجائیں گی،کیونکہ ایک دو تین،میری بیویاں طلاق ہوجائیں گی کاتعلق سابقہ جملے"اے استاذاگرآپ نے صحیح شرعی فیصلہ کیاتوپھرہم کسی اورکے پاس دوبارہ شرعی فیصلہ کے لئے نہیں جائیں گے"کے ساتھ ہے،مطلب یہ ہے کہ اگرمولوی صاحب کے شرعی فیصلہ کے باوجودہم کسی اورکے پاس فیصلہ کے لئے گئے توایک دوتین طلاق ہوجائیں گی،اورمولوی صاحب کافیصلہ شرعادرست ہے،الایہ کہ بائع گواہوں کاجھوٹاہوناثابت کردے توپھر فیصلہ بھی درست نہ ہوگااور اگرکسی اورکے پاس فیصلہ کے لئے گئے توطلاق بھی واقع نہ ہوں گی۔ البتہ کنکری پھینکنے کے ساتھ چونکہ طلاق کے الفاظ نہیں،اس لئےصرف کنکری پھینکنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
حوالہ جات
"حاشية رد المحتار"3 / 27: قوله علي الطلاق ۔۔ونقل السيد الحموي عن الغاية معزيا إلى الجواهر: الطلاق لي لازم يقع بغير نيه اه. قلت: لكن يحتمل أن مراد الغاية ما إذا ذكر المحلوف عليه لما علمت من أنه يراد به في العرف التعليق، وأن قوله علي الطلاق لاأفعل كذا بمنزلة قوله إن فعلت كذا فأنت طالق، فإذا لم يذكر لاأفعل كذا بقي قوله على الطلاق بدون تعليق، والمتعارف استعماله في موضوع التعليق دون الانشاء، فإذا لم يتعارف استعماله في الانشاء منجزا لم يكن صريحا، فينبغي ان يكون على الخلاف الاتي فيما لو قال طلاقك علي، ثم رأيت سيد عبد الغني ذكر نحوه في رسالته. تتمة: ينبغي انه لو نوى الثلاث تصح نيته، لان الطلاق مذكور بلفظ المصدر، وقد علمت صحتها في، وكذا في قوله علي الحرام فقد صرحوا بأنه تصح نية الثلاث في أنت علي حرام۔ "الفقه الإسلامي وأدلته" 9 / 418: ثالثا ـ الطلاق المعلق : هو ما رتب وقوعه على حصول أمر في المستقبل، بأداة من أدوات الشرط أي التعليق، مثل إن، وإذا ، ومتى، ولو ونحوهاؕؕؕؕؕؕ والتعليق إما لفظي: وهو الذي تذكر فيه أداة الشرط صراحة، مثل إن وإذا۔ وإما معنوي: وهو الذي لا تذكر فيه أداة الشرط صراحة، بل تكون موجودة من حيث المعنى، كقول الزوج: علي الطلاق لأفعلن كذا، أو لا أفعل كذا، أو الطلاق يلزمني لا أفعل كذا. فالمقصود منها بحسب العرف: لزوم الطلاق إن حصل المحلوف عليه، أم لم يحصل۔ "حاشية رد المحتار" 2 / 472: قوله: (ولو حلف) بأن قال: امرأته طالق إن لم تفطر، كذا في السراج، وكذا قوله: علي الطلاق لتفطرن فإنه في معنى تعليق الطلاق كما سيأتي بيانه في محله إن شاء الله تعالى۔ "حاشية رد المحتار" 3 / 254: قوله: (وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية۔۔۔۔۔ ، وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمّد بن حضرت استاذ صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب