021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جس عورت کو عدت میں حیض آنا بند ہو جائے تو عدت کا حکم
59058پاکی کے مسائلحیض،نفاس اور استحاضہ کا بیان

سوال

میں نے 26 جنوری کو انجکشن لگوایا بچہ روکنے کا۔ اور 28 جنوری کو نکاح ہوا، اور شوہر سے واپس آنے کے بعد 30 جنوری کو رنگ رکھوائی جس سے کتھے رنگ کی رطوبت سی خارج ہونا شروع ہوئی اور 3 فروری کی رات کو ایک نقطے جیسا خون آیا اور غالبن 4 فروری کی صبح بھی ہلکا دھاگے جیسا آیا، شوہر سے ملنے کے بعد بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوا اور جب طلاق لے کے گھر پہنچی تو اچھا خاصا تھا، لیکن پاک ہونے کے بعد نمازیں پڑھتی رہی، اگلے دن 5 فروری کو کالا تھا بلکل، اس دن سے نماز بھی چھوڑی کہ پورا دن جاری رہے اور اگلے دن 6 فروری سے باقاعدہ حیز آگئے، 18 فروری کو رنگ نکلوائی اور دوا لی تو 20 فروری کو بند ہوے. ہرمہینے، پاکی کے بعد بیسویں دن آجاتے تھے، میری مہینے کی عادت 7 فروری سے بنتی تھی، اور 11فروری کو پاک ہوجانا تھا، پھر دوبارہ بھی دواییں کھانے کے بعد، جبکہ عادت کے مطابق 3 مارچ بنتی تھی لیکن 16 مارچ کو آے مگر صحیح سے نہیں تھے، ویسے تو تھے لیکن گدی صاف رہی دو دن تک، اور پھر 4 دن تک رہے مزید، اور 21 مارچ کو بند ہوگے. اس کے بعد سے آج تک نہیں آے ہیں. مجھے بلکل باقائدگی سے آتے تھے، جب سے یہ سب کیا تب سے مسلہ ہوگیا، اور میری عمر 16 جون کو 37 سال ہوئی ہے، جو الحمدلللہ منسس کے بند ہونے کی عمر نہیں ہے۔ سوال نمبر 1: عدّت کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ تحریری جواب چائیے جو مجھے فون پے ملا ہے کے جب تک تیسرا حیض نہیں آیگا، عدّت پوری نہیں ہوگی، چاہے کتنا وقت بیت جاے. میری عدّت کے بارے میں پلیز بہت مہربانی ہوگی کے آپ ارجنٹ اس کا تحریری جواب دے دیں کیونکہ میرے والد مجھ پے زور دے رہے ہیں کے میں پہلے شوہر سے نکاح کروں جو کے عدّت کے پورا نہ ہونے پے منعقد نہیں ہوسکتا ہے، 4 فروری کو طلاق ہوئی تھی، اور اوپر دی گئی تفصیل کے مطابق تیسرا حیض آج تک نہیں آیا ہے،طلاق کو 6 مہینے ہورہے ہیں، وه مجھے دوسرے شوہر سے نکاح نہیں کرنے دےرہے، دوسرے شوہر نےکنایہ الفاظ سے ایک طلاق بائین دی تھی.

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسؤلہ میں حنفیہ کے نزدیک دوسرے شوہر کے طلاق دینے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرنے کے لیے عدت یعنی تین حیض کا گزرنا ضروری ہے، تین حیض مکمل ہونے سے پہلے دوسری جگہ نکاح کرنا جائز نہیں، البتہ اگر تیسرا حیض نہ آئے تو پھرعادۃً حیض بند ہونے کی عمر تک پہنچنے کے بعد تین ماہ عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔لہذا تیسرا حیض آنے کا انتظار کیا جائے یا یہ کہ کسی ڈاکٹر کے مشورہ سے کوئی دوائی وغیرہ استعمال کرلی جائے، جس سے ماہواری کے ایام جلد شروع ہو جائیں۔ تاہم اگر علاج معالجہ کروانے اور دوائی استعمال کرنے کے بعد بھی ایام شروع نہ ہوں اور اتنا طویل عرصہ انتظار کرنامشکل ہوتو مجبوری کی صورت میں مالکیہ کے مذہب پر عمل کیا جا سکتا ہے اور مالکیہ کے نزدیک راجح قول کے مطابق ایک سال تک عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کیا جا سکتا ہے، باقی یہ سال حیض بند ہونے کے وقت سے شروع ہوگا۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ اس ایک سال کے دوران اگر حیض آگیا تودوبارہ نئے سرے سے تین حیض پورے کرنا ضروری ہوں گے۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين (3/ 516)، مطلب فی النکاح الفاسد والباطل، دار الفكر، بیروت وعندنا ما لم تبلغ حد الإياس لا تعتد بالأشهر وحده خمس وخمسون سنة هو المختار لكنه يشترط للحكم بالإياس في هذه المدة أن ينقطع الدم عنهامدة طويلة وهي ستة أشهر في الأصح ثم هل يشترط أن يكون انقطاع ستة أشهر بعد مدة الإياس، الأصح أنه ليس بشرط حتى لو كان منقطعا قبل مدة الإياس ثم تمت مدة الإياس وطلقها زوجها يحكم بإياسها وتعتد بثلاثة أشهر هذا هو المنصوص في الشفاء في الحيض وهذه دقيقة تحفظ اه حاشية ابن عابدين (3/ 508)، دار الفكر، بیروت قوله ( نعم لو قضى مالكي بذلك نفذ ) لأنه مجتهد فيه وهذا كله رد على ما في البزازية قال العلامة والفتوى في زماننا على قول مالك وعلى ما في جامع الفصولين لو قضى قاض بانقضاء عدتها بعد مضي تسعة أشهر نفذ اه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أن مالكي يقرر بالراء لكن قد علمت أن المعتمد عند المالكية تقدير المدة بحول ونقله أيضا في البحر عن المجمع معزيا لمالك۔ الفتاوى الهندية (1/ 529) إن كانت آيسة فاعتدت بالشهور ثم رأت الدم انتقض ما مضى من عدتها وعليها أن تستأنف العدة بالحيض ومعناه إذا رأت الدم على العادة لأن عودها يبطل الإياس هو الصحيح كذا في الهداية النهر الفائق شرح كنز الدقائق (2/ 476) حاضت ثم امتد طهرها لا تعتد بالأشهر إلا إذا بلغت سن الإياس. وعن مالك انقضاؤها بحول وقيل بتسعة أشهر ستة لاستبراء الرحم (وثلاثة أشهر) للعدة ولو قضى به قاض نفذ. قال الزاهدي: وقد كان بعض أصحابنا يفتون به للضرورة خصوصًا الإمام والدي/ وفي (البزازية) والفتوى في زماننا على قول مالك في عدة الآيسة وأنت خبير بأنه لا داعي إلى الإفتاء بقول نعتقد أنه خطأ يحتمل الصواب مع إمكان الترافع إلى مالكي يحكم به۔ بداية المجتهد (2/ 91) واختلف عن مالك متى تعتد بالتسعة أشهر فقيل من يوم طلقت وهو قوله في الموطأ وروى ابن القاسم عنه من يوم رفعها حيضتها. الاستذكار (ص: 3452) وقال بن القاسم عن مالك إذا حاضت المطلقة ثم ارتابت فإنها تعتد بالتسعة الأشهر من يوم رفعتها حيضتها لا من يوم طلقت. البناية شرح الهداية(403/5)، باب العدة، مكتبة رشيدية وعدة إلى ستين سنة، وصورته أن ينقطع حيضها بعد الطلاق، تصير إلى أن يصير سنها ستين سنة، ثم تعتد بثلاثة أشهر ، وإن كانت عادة أمها وأخواتها انقطاع الحيض قبل ستين سنة يؤخذ بعادتهن، وإن كانت عادتهن انقطاع الدم بعد ستين يؤخذ بذلك، ويؤخذ بستين۔
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد نعمان خالد صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب