میں ایک بیوہ ہوں۔ میرا خاوند سرکاری ملازم تھا۔ وہ 2008ء میں دوران ملازمت وفات پاگئے۔ ہماری کوئی اولاد نہیں اور میرے خاوند کے والدین اور بہن بھائی میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہے۔ البتہ میرے خاوند کے چار شادی شدہ بھتیجے زندہ ہیں جو پہلے سے ہم سے جدا تھے۔ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر ہوں۔ میری بیماری اور نان و نفقہ کا خرچہ میرے بھائی ادا کرتے ہیں۔
مسئلہ نمبر1:
مندرجہ ذیل فنڈز میں جو میرے نام آئے ہیں یا اس کے بعد آئیں گے ان میں سے شرعی طور پر کن کن فنڈز اور رقوم پر مکمل میرا حق بنتا ہے اور کن فنڈز میں میرا جزوی حق بنتا ہے۔ نیز کن فنڈز میں میرے خاوند کے بھتیجوں کا مکمل یا جزوی حق بنتا ہے۔
(1) فیملی ماہانہ پنشن کی رقم
(2) یکمشت فیملی پنشن کی فروخت شدہ رقم
(3) گریجویٹی
(4) بینوولنٹ فنڈ
(5) گروپ انشورنس
(6) جی پی فنڈ
(7) مالی معاونت
o
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
پنشن، یکمشت فیملی پنشن کی فروخت شدہ رقم، بینوولنٹ فنڈ، گروپ انشورنس، مالی معاونت اور دیگر فنڈز جو ان کے حکم میں ہوں، یہ تنخواہ کا جزو نہیں ہے بلکہ یہ حکومت یا ادارے کی طرف سے ملنے والا انعام و تبرع ہے، لہذا یہ وظیفہ میراث کی تقسیم سے مستثنی ہوگا، حکومت یا ادارہ جس کو چاہے اور جتنا چاہے دے سکتی ہے۔ صورت مسئولہ میں مرحوم کے کاغذات پر اس کی بیوی کا نام ہےاور سرکاریا ادارہ بھی اس پر راضی ہے، لہذا ان فنڈز میں صرف بیوی کاحق ہے دیگر ورثاء اس میں شریک نہیں ہوں گے۔
گریجویٹی فنڈ ، جی پی فنڈ اور دیگرایسے فنڈزجن کا شوہر اپنی زندگی میں قانونی طور پر اس طرح حق دار ہوگیا تھا، کہ وہ ان کا مطالبہ کرسکتا تھا، ان میں وراثت جاری ہوگی۔ اس لیے کہ ان میں تنخواہ کا جو حصہ کاٹ کر جمع کیا جاتا ہے، اس پر مسلسل ملازم کا حق رہتا ہے اور اس کا مطالبہ وہ لازماً اپنی زندگی میں کرسکتا ہے، اس لیے اس میں شامل ہونے والی رقم اس کا لازمی مالی حق ہے جو اس کے ترکے میں شامل ہے اور اگر وہ اس کی وفات کے بعد ملے تو یہ تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ بیوی کو مجموعی رقم کا چوتھائی حصہ ملے گا ، بقیہ رقم کے 4 حصے کیے جائیں گے جو اس کے چاروں بھتیجوں میں برابر برابر تقسیم ہوں گے۔
حوالہ جات
"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني)…صفة كاشفة لأن تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية. واعلم أنه يدخل في التركة الدية الواجبة بالقتل الخطأ أو بالصلح عن العمد أو بانقلاب القصاص مالا بعفو بعض الأولياء، فتقضى منه ديون الميت وتنفذ وصاياه كما في الذخيرة"
)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/759 ط:دار الفکر-بیروت)
"المادة (2 9 0 1) - (كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين وارثيه على حسب حصصهم كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين وارثيه على حسب حصصهم) كما تكون أعيان المتوفى المتروكة مشتركة بين - وارثيه، على حسب حصصهم الإرثية بموجب علم الفرائض أو بين الموصى لهم بموجب أحكام المسائل المتعلقة بالوصية كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا بين ورثته على حسب حصصهم الإرثية أو بين الموصى لهم بموجب الوصية… مثلا لو توفي أحد وترك زوجة وولدا وبنتا فالأعيان والديون المتروكة عنه تقسم بينهم باعتبار أربعة وعشرين سهما ثلاثة أسهم للزوجة وأربعة عشر سهما للولد وسبعة أسهم للبنت"
(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام3/55 ط:دار الجیل)
" (فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن) وأما مع ولد البنت فيفرض لها الربع (وإن سفل والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/769 ط:دار الفکر-بیروت)
"(يحوز العصبة بنفسه وهو كل ذكر) فالأنثى لا تكون عصبة بنفسها بل بغيرها أو مع غيرها (لم يدخل في نسبته إلى الميت أنثى) فإن دخلت لم يكن عصبة كولد الأم فإنه ذو فرض وكأبي الأم وابن البنت فإنهما من ذوي الأرحام (ما أبقت الفرائض) أي جنسها (وعند الانفراد يحوز جميع المال) بجهة واحدة. ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما"
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/773 ط:دار الفکر-بیروت)