ایک رشتہ دار نے Benevolent (بینوولنٹ فنڈ) کی مد میں مجھے 260000 (دو لاکھ ساٹھ ہزار روپے) دئیے کہ یہ رقم آپ کے نام پر حکومت کی طرف سے آئی ہے۔ میں خوش ہوگئی اور میں نے حج پر جانے کا ارادہ کیا کیونکہ یہ رقم ملنے سے مجھ پر حج فرض ہوگیا۔ اس دوران میرے خاوند کا ایک بھتیجا مجھے اور میرے بھائی کو بار بار اطلاع کرتا تھا کہ کتنا رقم لیا ہے، یہ رقم تو ہمارے چچا کی پنشن کی ہے، آپ لوگوں نے کیوں نہ بتایا۔ یہ ہم چار بھائیوں کا حساب ہوتا ہے اور اگر میرے بڑے بھائی کو پتہ لگ گیا تو وہ آپ لوگوں سے رقم لےگا اور بے عزتی کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ میں خاوند کے بھتیجوں کے پاس گئی اور بتایا کہ مجھے 260000 روپے ملے ہیں اور یہ رقم میرے ہی نام پر آئی ہے۔ خاوند کے بھتیجوں نے کہا کہ میں اس لیے بار بار رقم کا پتہ کرتا ہوں کہ میرے چچا کی رقم میں ہم چار بھائیوں کا حق بنتا ہے۔ میں آپ کے بھائی کی عزت بچانے کے لیے رقم مانگتا ہوں۔ کیونکہ جب میرے بڑے بھائی کو پتہ لگ جائےتووہ آپ کے بھائی کو (جس کے ساتھ میں رہ رہی ہوں) بے عزت کرے گا، اس کے ساتھ جھگڑا کرے گا اور بھی بہت سی باتیں کی۔ میں نے خوف اور دھمکی آمیز باتوں کی وجہ سے رقم اس کے پاس چھوڑدی تاکہ میرے بھائیوں کی بےعزتی نہ ہوجائے۔ لیکن اس کو بتادیا کہ یہ رقم میری ہی ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کو جب بھی ضرورت ہو اس سے لےلیا کریں۔ اس نے علماء سے پتہ کیا، علماء نے کہا کہ " یہ رقم تو بیوہ کی ہے"۔ اس نے دوسرے دن مجھے گھر بلایا، میں نہ گئی لیکن بار بار اطلاع دیتےرہے۔ میرے مریض بھائی کو فون کیا کہ انہیں ضرور میرے پاس بھیج دو۔ میں اس کے پاس گئی، اس نے رات کو مجھے وہاں ٹھہرایا۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے رقم میری گود میں ڈال کر کہا کہ علماء نے کہا کہ رقم آپ (بیوہ) کی ہے۔ میں خوش ہوئی اور رقم جیب میں ڈالنا چاہتی تھی کہ اس نے میرے ہاتھ سے رقم چھین لیا اور کہا کہ یہ رقم خاوند کے ایصال ثواب کے لیے میرے مدرسے میں خیرات کرو۔وہ عالم دین نہیں ہے لیکن مدرسۃ البنات بنایا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ رقم میری ہے میں خود اس میں سے صدقہ یا خیرات کرنے کی مجاز ہوں۔اس نے اس بات کے ساتھ اٹھ کر کہا کہ رقم آپ کی ہے یا آپ کے خاوند کی ہے؟ میں یہ رقم اپنے مدرسے میں خرچ کرتا ہوں، آپ کو اور آپ کے خاوند دونوں کو ثواب ملے گا اور رقم اپنے ساتھ لےکر چلا گیا اور میں حیران و پریشان رہ گئی۔
صبح میں حیرانی اور ریشانی کی حالت میں اپنے بھائی کے گھر آئی۔ سارا واقعہ سنایا اور بڑے بھائی کو بھی فون کیا۔ میرے بڑے بھائی نے (جو کراچی میں ہے) فوراً میرے خاوند کے بھتیجے کو فون کیا اور کہا " یہ رقم بینوولنٹ کی ہے اور میری بہن ہی کی ہے۔ میری بہن اس رقم سے حج کرنا چاہتی ہے کیونکہ علماء کہتے ہیں کہ اس پر حج فرض ہوگیا ہے۔ لہذا آپ یہ رقم مدرسہ میں نہ لگائیں اور میری بہن کو دے دیں۔ اس نے کہا کہ فکر نہ کریں، یہ رقم آپ کی بہن کی ہے، میں صرف تحقیق کرنا چاہتا ہوں کہ یہ رقم کس فنڈ کی ہے۔ وہ بار بار ٹائم مانگتا ہے۔ میرے بھائی نے آٹھ دس مرتبہ اس کو فون کیا لیکن وہ کبھی ایک بہانہ، کبھی دوسرا بہانہ بناکر ٹال مٹول کرتا ہے اور تاحال رقم واپس نہیں دی۔ جس کی وجہ سے میں جسمانی بیماری کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر بھی پریشان ہوتی ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا میں یہ رقم اس سے طلب کرسکتی ہوں؟ کیونکہ:
(1) میں نے مرضی اور ارادتاً رقم مدرسے کے لیے نہیں دی، اس نے از خود میرے ہاتھ سے لے کر مدرسہ میں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔
(2) میں نے اگلے ہی روز بڑے بھائی کے ذریعے اسے فون کرکے رقم کو مدرسہ میں لگانے سے منع کیا ہے۔
(3) مجھ پر حج فرض ہوا ہے۔ اس رقم سے میں حج کرنا چاہتی ہوں، اس رقم کے علاوہ میرے پاس اتنی رقم نہیں کہ میں فریضہ حج ادا کرسکوں۔
o
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں بینوولنٹ فنڈ کی رقم حکومت کی طرف سے آپ کے نام پر جاری ہوئی ہے، لہذا یہ رقم آپ کی ہےاور آپ کے شوہر کے بھتیجوں کا آپ سے یہ رقم لینا جائز نہیں ہےاور یہ غصب کے حکم میں ہے۔ آپ ان سے اپنی رقم کا مطالبہ کرسکتی ہیں اور ان پر لازم ہے کہ وہ یہ رقم جلدسے جلد آپ تک پہنچائیں۔
حوالہ جات
"(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن والعبد الجاني)…صفة كاشفة لأن تركۃ الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية. واعلم أنه يدخل في التركة الدية الواجبة بالقتل الخطأ أو بالصلح عن العمد أو بانقلاب القصاص مالا بعفو بعض الأولياء، فتقضى منه ديون الميت وتنفذ وصاياه كما في الذخيرة"
)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/759 ط:دار الفکر-بیروت)
"الغصب (هو) لغة: أخذ الشيء مالا أو غيره كالحر على وجه التغلب. وشرعا (إزالة يد محقة) ولو حكما كجحوده لما أخذه قبل أن يحوله (بإثبات يد مبطلة)… (وحكمه الإثم لمن علم أنه مال الغير ورد العين قائمة والغرم هالكة ولغير من علم الأخيران) فلا إثم؛ لأنه خطأ وهو مرفوع بالحديث…(قوله ولغير من علم الأخيران) أي وحكمه لغير من علم أنه مال الغير الرد أو الغرم فقط دون الإثم (قوله بالحديث) وهو قوله - عليه الصلاة والسلام - «رفع عن أمتي الخطأ والنسيان» معناه رفع مأثم الخطأ أتقاني"
)الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)6/77 1ط:دار الفکر-بیروت)