میں اپنے ہوش وہواس سے قرآن اورخداکوگواہ بناکرلکھ رہاہوں اگرمیں زندگی کے کسی موڑ پرناراض ہواتومیری طرف سےآپ کوایک مرتبہ طلاق ہوجائے گی ،آپ مجھ سے جداہوجاؤگی ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
اگرمیں تم سے کسی موڑپرناراض ہواتومیری طرف سے آپ کوایک مرتبہ طلاق ہوجائے گی “ یہ طلاق معلق ہے ،طلاق معلق کاحکم یہ ہے کہ شرط کے پائے جانے سے طلاق ہوجاتی ہے ،لہذاجب شوہربیوی سے ناراض ہوگاتوبیوی پرایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی ،دوسراجملہ ”آپ مجھ سے جداہوجاؤگی “یہ کنائی لفظ ہے ،کنائی الفاظ میں طلاق نیت کرنے سے ہوتی ہے ،لہذااگراس سے مستقل دوسری طلاق کی نیت تھی توشوہرکی ناراضگی کی صورت میں اس سے دوسری طلاق بھی واقع ہوجائے گی اوردونوں طلاقیں بائن ہوجائینگی ،جس کے بعدنیانکاح کرناہوگا اوراگراس سے مستقل دوسری طلاق کی نیت نہیں تھی تواس صورت میں صرف ایک رجعی طلاق واقع ہوگی ۔
طلاق سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ بیوی ایسی کوئی بات نہ ہونے دے کہ ناراضگی کاخطرہ ہو،لہذاجب تک ناراض نہیں ہوتاکوئی طلاق نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية (ج 9 / ص 213):
"إذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته : إن دخلت الدار فأنت طالق."
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (ج 6 / ص 282):
"لا تطلق بها أي بالكنايات إلا بنية أو بدلالة حال أراد بدلالة الحال حال مذاكرة الطلاق أو حالة الغضب."
رد المحتار (ج 3 / ص 336):
" الصريح يلحق الصريح والبائن قوله: (الصريح يلحق الصريح) كما لو قال لها: أنت طالق ثم قال أنت طالق أو طلقها على مال وقع الثاني.فلا فرق في الصريح الثاني بين كون الواقع به رجعيا أو بائنا