021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سود کی رقم سے کاروبار کرنے کا حکم
60124سود اور جوے کے مسائلسود اورجوا کے متفرق احکام

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: ایک بندہ 1997ء تک ہندوستان میں سود کا کاروبار کرتا رہا۔ یہ کاروبار ایک ہندو کے ساتھ تھا۔ اس کے بعد وہ شخص پاکستان آگیا اور اپنی پرانی زندگی سے توبہ کرلی۔ یہاں اونٹ، بکری، زمین اور دیگر کاروبار کیے۔ اسی طرح کراچی میں ایک دوکان لی۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ میں نے سہراب گوٹھ میں ایک دوکان لی ہے، جس میں اس شخص کا بیٹا میرے ساتھ شرکت کرنا چاہتا ہے تو کیا اس شخص کے بیٹے کے ساتھ شرکت کرنا جائز ہے؟ نیز اگر یہ جائز نہ ہو تو وہ کسی دوسرے سے قرض لے کر وہ رقم مجھے دے تو کیا یہ صورت شرعاً جائز ہوگی؟ o

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورت مسئولہ میں اگر آپ کو اس بات کا علم ہو کہ مذکورہ سودی کاروبار کرنے والے کا بیٹااپنے والد کے کمائے ہوئے سود کے پیسوں سے آپ کےساتھ کاروبار میں شریک ہورہا ہےتو آپ کے لیے اس کو کاروبار میں اپنے ساتھ شریک کرنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر ایسی صورت میں وہ دوسرے کسی شخص سے قرض لےکر آپ کو کاروبار کے لیے رقم فراہم کرے تو آپ کے لیے ایسے سرمایہ کو اپنے کاروبارمیں لگاناجائز ہوگا۔ البتہ اگر آپ کے علم یا غالب گمان کے مطابق مذکورہ شخص کا بیٹا اپنی ذاتی حلال سرمایہ سے یا اپنے والد کے کمائے ہوئے حلال سرمایہ سے آپ کے ساتھ کاروبار میں شریک ہورہا ہے تو ایسی صورت میں آپ کے لیے اس کو اپنے ساتھ کاروبار میں شریک کرنا جائز ہے۔بہرحال مذکورہ صورت میں آپ کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ اس شخص سے پہلے اس بات کی تحقیق کرلیں کہ وہ کس قسم کا سرمایہ آپ کے ساتھ کاروبار میں لگانا چاہتے ہیں اور اس طرح تحقیق کے بعد اگر اس کے سرمایہ کے حلال ہونے کا علم یا غالب گمان ہو تو تب اس کو اپنے ساتھ شریک کرلیں۔
حوالہ جات
"(قوله تعالى: (يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا الربوا أضعافا مضاعفة) هذا النهي عن أكل الربا… قال مجاهد: كانوا يبيعون البيع إلى أجل، فإذا حل الأجل زادوا في الثمن على أن يؤخروا، فأنزل الله عز وجل:" يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا الربوا أضعافا مضاعفة". [قلت] «1» وإنما خص الربا من بين سائر المعاصي، لأنه الذي أذن الله فيه بالحرب في قوله:" فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله ورسوله" [البقرة: 279] «2» والحرب يؤذن بالقتل، فكأنه يقول: إن لم تتقوا الربا هزمتم وقتلتم. فأمرهم بترك الربا، لأنه كان معمولا به عندهم. والله أعلم" (تفسير القرطبي4/ 202دارالکتب المصریۃ) "أخبرنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، أنبأنا علي بن زيد، عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه قال: كنت آخذا بزمام ناقة رسول الله صلى الله عليه وسلم في أوسط أيام التشريق, أذود الناس عنه فقال: ألا إن كل ربا في الجاهلية موضوع، ألا، وإن الله قضى أن أول ربا يوضع ربا عباس بن عبد المطلب، لكم رءوس أموالكم, لا تظلمون ولا تظلمون." (سنن الدارمي ت الغمري (ص: 609)ط:دار البشائر) "حدثنا حسين بن محمد، حدثنا جرير يعني ابن حازم، عن أيوب، عن ابن أبي مليكة، عن عبد الله بن حنظلة غسيل الملائكة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «درهم ربا يأكله الرجل وهو يعلم، أشد من ستة وثلاثين زنية»" (المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة 4/204 )
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب