021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پھلوں کے باغات کو اجارہ پر دینے کی مخصوص صورت کا حکم
60225/56اجارہ یعنی کرایہ داری اور ملازمت کے احکام و مسائلکرایہ داری کے متفرق احکام

سوال

ہمارے ہاں پھلوں کے باغات کے لئے بنجر کھیت کو اجارے پر دوسرے فریق(بندے)کو دیتے ہیں اور یہ میعاد مثال کے طور پر 7سال یا 10 سال وغیرہ کے حساب سے ہوتا ہے اور فریق اول والوں کو طے شدہ اجارہ دیتے ہیں اور فریق ثانی مقررہ وقت تک فائدہ اٹھاتا ہے۔ تو کیا شریعت میں اس طرح کرنا جائز ہے ؟ اور اگر نہیں تو اسطرح کے متبادل اجارے وغیرہ کا طریقہ بتا دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

زمین یا کھیت وغیرہ کو اجارہ پر دینا اور اس میں کاشت کرکے غلہ وغیرہ حاصل کرنے کے لیے اجارہ کا معاملہ کرنا درست ہے ،لیکن باغات میں موجود درختوں کو اجارہ پر دینا تاکہ مستاجر پھل وغیرہ حاصل کرسکے ،یہ جائز نہیں،اس لیے کہ اجارہ شرعاً منافع پر ہوتا ہے،کسی عین چیز کو ھلاک (کنزیوم) کرنے پر اجارے کا عقد کرنا شرعاًدرست نہیں ہوتا،البتہ اجارہ کی جگہ اگر پھلوں کی بیع کی جائے تو وہ جائز ہوگی۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 29) (و) تصح إجارة (أرض للزراعة مع بيان ما يزرع فيها، أو قال على أن أزرع فيها ما أشاء) كي لا تقع المنازعة وإلا فهي فاسدة للجهالة، وتنقلب صحيحة بزرعها ويجب المسمى وللمستأجر الشرب والطريق، ويزرع زرعين ربيعا وخريفا ولو لم يمكنه الزراعة للحال لاحتياجها لسقي أو كري إن أمكنه الزراعة في مدة العقد جاز وإلا لا، وتمامه في القنية. الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 8) (قوله فيستأجر أرضه الخالية) أي بياضها بدون الأشجار، وإنما لا يصح استئجار الأشجار أيضا لما مر أنها تمليك منفعة، فلو وقعت على استهلاك العين قصدا فهي باطلة.قال الرملي: وسيأتي في إجارة الظئر أن عقد الإجارة على استهلاك الأعيان مقصود كمن استأجر بقرة ليشرب لبنها لا يصح، وكذا لو استأجر بستانا ليأكل ثمره.قال: وبه علم حكم إجارات الأراضي والقرى التي في يد المزارعين لا كل خراج المقاسمة منها، ولا شك في بطلانها والحال هذه، وقد أفتيت بذلك مرارا. بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4/ 175) وإذا عرف أن الإجارة بيع المنفعة فنخرج عليه بعض المسائل فنقول: لا تجوز إجارة الشجر والكرم للثمر؛ لأن الثمر عين والإجارة بيع المنفعة لا بيع العين. المبسوط لشمس الدين السرسخي (9/ 62) ولايجوزاجارة الشجر والكرم بأجرة معلومة على أن تكون الثمرة للمستأجر لان الثمرة عين لا يجوز استحقاقها.
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

متخصص

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب