021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جنازہ میں سورة فاتحہ پڑھنے اورنہ پڑھنے کاحکم
60441جنازے کےمسائلجنازے کے متفرق مسائل

سوال

حدیث ثناء فی الجنازہ کے مقابلہ میں فاتحہ فی الجنازہ کی حدیث صریح موجودہے،لیکن ہم صرف ثناء،دروداوردعا پڑھتے ہیں اورسنت قراردیتے ہیں ،جبکہ فاتحہ کے صرف جوازکے قائل ہیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

محدثین کےنزدیک اصول ہے جہاں دویادوسے زیادہ احادیث کے مضمون میں تعارض ہوجائے توان میں جس حدتک تطبیق ممکن ہوکرنی چاہئیے ،تاکہ دونوں حدیثوں پرعمل ہوسکے،اس اصول کوسامنے رکھتے ہوئے احناف کےبیان کردہ مفہوم اورمعنی لینے سےدونوں حدیثوں پرعمل ہوجاتاہےاورہ وہ مفہوم یہ ہے کہ نمازہ جنازہ کامقصداللہ تعالی کی حمدوثناء،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پردرود اورمیت کے لئے دعاہے اوریہ حمدوثناء سورة الفاتحہ میں موجود ہےاس لئے اگرکوئی شخص سورة الفاتحہ حمدوثناء کی نیت سے پڑھتاہے تواس میں کوئی حرج نہیں۔چناچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے نمازہ جنازہ میں سورة فاتحہ حمدوثناء کی نیت سے پڑھی تھی ،نہ کہ فی نفسہ اس سورت کے نمازہ جنازہ میں معین ہونے کے،اس پر ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے جب نمازہ جنازہ کاطریقہ پوچھاگیاتوانہوں یہی معروف اورمروج طریقہ بتلایااس میں فاتحہ پڑھنے کاذکرنہیں کیا،اگرسورة فاتحہ پڑھناضروری ہوتاتوحضرت ابوہریرہ رضی اللہ ضروراس کاتذکرہ فرماتے۔ دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر،حضرت علی ،عبداللہ بن عمر،فضالہ بن عبید،ابوہریرہ،جابربن عبداللہ وغیرہم رضی اللہ تعالی عنہم ان سب کے بارے میں آتاہے کہ وہ نمازہ جنازہ میں قراء ت فاتحہ نہیں فرمایاکرتے تھے،جبکہ ان میں سے اکثریت اجلہ صحابہ اورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے اساتذہ پرمشتمل ہے اوریہ کیسے ہوسکتاہے کہ ان کے فعل اورقول میں تضادہو،اس لئے لازمی طورپریہی معنی مراد لینا پڑے گاکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکامقصدفاتحہ سے حمدوثناء اوردعاء تھی ۔ تیسری دلیل یہ ہےکہ قاسم بن محمد،سالم بن عبداللہ،ابن المسیب،ربیعہ،عطاء بن ابی رباح اوریحی بن سعیدجیسے جبال علم جواہل مدینہ کے فقہاء میں سے ہیں ان کے بارے میں بھی یہی منقول ہے کہ وہ نمازہ جنازہ میں قراء ت نہیں کرتے تھے ،اگرابن عباس رضی اللہ عنہماکے قول سے بعینہ فاتحہ کی سنت مرادلی جائے تو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اتنامشہوراورعام مسئلہ ان فقہاء سے مخفی رہ گیاہو اور عدم علم کی وجہ سے سورة فاتحہ نمازہ جنازہ میں نہ پڑھتے ہوں ،یقینی طورپران کاسورة فاتحہ کانہ پڑھنااس کی دلیل ہے کہ قول ابن عباس کاوہ مطلب نہیں جوبعض حضرات لیتے ہیں۔
حوالہ جات
موطأ مالك لمالك بن أنس (ج 2 / ص 319): ”عن سعيد بن أبي سعيد المقبري عن أبيه أنه سأل أبا هريرة كيف تصلي على الجنازة؟فقال أبو هريرة: أنا لعمر الله أخبرك أتبعها من أهلها فإذا وضعت كبرت وحمدت الله وصليت على نبيه ثم أقول: اللهم إنه عبدك وابن عبدك وابن أمتك كان يشهد أن لا إله إلا أنت وأن محمدا عبدك ورسولك وأنت أعلم به اللهم إن كان محسنا فزد في إحسانه وإن كان مسيئا فتجاوز عن سيئاته اللهم لا تحرمنا أجره ولا تفتنا بعده۔ “ موطأ مالك لمالك بن أنس (ج 2 / ص 320): "عن مالك عن نافع أن عبد الله بن عمر كان لا يقرأ في الصلاة على الجنازة." المدونة الكبرى (ج 1 / ص 174): ”عن داود بن قيس أن زيد بن أسلم حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في الصلاة على الميت:أخلصوه بالدعاء ( بن وهب ) عن رجال من أهل العلم عن عمر بن الخطاب وعلي بن أبي طالب وعبد الله بن عمر وعبيد بن فضالة وأبي هريرة وجابر بن عبد الله ووائلة بن الأسقع والقاسم وسالم بن عبد الله وبن المسيب وربيعة وعطاء ويحيى بن سعيد أنهم لم يكونوا يقرؤون في الصلاة على الميت. “
..
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب